کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 297
مقلدین سے نہیں ہے جس کا بقول دعویدار ان مذہبیت مطالعہ محدود، فکر سطحی، قلب مریض، قلم بے باک، زبان گستاخ اور مزاج فتنہ پرور ہوتاہے۔ ا ور جواپنی کم مائیگی، اور فقہاٰ کرام کی باریکیوں اور ان کے استدلالات کی گہرائیوں سے بہرہ ورنہ ہونے کی بناء پر محض لغو بدظنی کی وجہ سے بلاوجہ ائمہ کرام سے دشمنی مول لے لیتی ہے، اور جوبقول شائستگی کے ٹھیکہ داروں کے بدعت کاگوزمارتی ہے۔ نہیں ان کا تعلق اس جماعت ناپسندیدہ سے نہیں، بلکہ مصر کی عالمی شہرت یا فتہ اہل علم جماعت سے ان کا تعلق ہے۔ جنہوں نے مصر وسوڈان میں تدریس وقجاء کی طویل خدمت انجام دی ہے، تاریخ فقہ پر گہری نظر رکھتے ہیں، ان کی تالیف کردہ کتاب” تاریخ التشریع الاسلامی“ کو ایک مصدر کی حیثیت حاصل ہے۔ ا سی وجہ سے سے مختلف ہونیورسٹیوں میں داخل نصاب ہے۔ چنانچہ اسی کتاب میں حیل کے مسائل پر گفتگو کرتےہوئے لکھتے ہیں :
”تاریخ کی یہ ایک نہایت عجیب وغریب داستان ہے کہ ایک دیندار شخص مسائل گھڑ کر لوگوں کو شرعی احکام سے فرار اختیار کرنے کی راہ دکھلائے۔ وضعی قوانین پر چلنے والے ایک وکیل (قانون دان) سے اس کی توقع کی جاسکتی ہے۔ اس لیے کہ وہ کسی مجرم کو آزادی دلانے کے لیے قانونی حیلوں کاسہارا لے سکتاہے، یہ چیز اس کےاثر ونفوذ اور کمال ہوشیاری ودانشمندی پر محمول کیاجائے گی، اور اگر اس باب میں کافی وسعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے قانونی حیلوں کے ذریعہ لوگوں کے لیے دوسروں کےحقوق کی پامالی کوآسان بنانا زشروع کردے تویہی چیز اس کی بدعہدی اور عدم ذمہ داری کی دلیل شمار کی جائے گی ‘حالانکہ وہ دین وشریعت سمجھ کر کسی چیز کے ابطال واسقاط کےلیے حیلہ سازی نہیں کرتاہے۔ توبھلا بتلائیے ایک ایسے متدین شخص کے بارےمیں ہمارا کیا تأثر ہوگا جو دینی احکام کے ساتھ یہی رویہ اپناتاہے۔ ہاں ہمیں اس دور [1]میں ایسا شخص دکھلائی دیتاہے جس نے کتاب
[1] مصنف کی تقسیم کے اعتبار سے تاریخ فقہ کا یہ چوتھا دور ہے جودوسری صدی کے اوائل سے شروع ہوکر چوتھی صدی کے نصف تک ممتدہے۔