کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 294
کے ادب واحترام اورا ن کی تعظیم اور ان کی توقیر وتعظیم میں اتنا زیادہ مبالغہ کرجاتے ہیں کہ مقام نبوت کا بھی انہیں ہوش نہیں رہ جاتا۔ چنانچہ ان کے کچھ بزرگ ایسے بھی ہیں جن کے قدم حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی آگے نکل جاتے ہیں یاجن کے قلم عر ش کے پرے چلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، یا اپنے مریدوں کی نجات کے لیے طول طویل مسافت طے کرکے چشم زون میں وسط سمندر میں پہنچ کر انہیں ہی نہیں ‘بلکہ پورے جہاز کومسافرین سمیت بچالیتے یں۔ لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ مقام نہیں حاصل ہوسکا کہ آپ حضرت جبیب بن عدی رضی اللہ عنہ کو کفار مکہ کی قید سے نجات دلاسکیں یہاں تک کہ انہیں ہفتہ عشرہ قید میں رکھنے کےبعد قتل کردیاگیایا اپنے جان نثارصحابہ قراء کرام کی اس پاکیزہ جماعت کو بچاسکیں جس کو نہایت ہی سفاکانہ طریقے سے حالت سجدہ میں شہید کردیاگیاتھاجس پر آپ اتنے زیادہ رنجیدہ ہوئے کہ ان کے معصوم خونوں سے اپنے ہاتھوں کو رنگنے والے قبائل پر مسلسل ایک ماہ تک لعنت بھیجتے رہے، یہاں تک کہ اللہ رب العزت کی جانب سے ممانعت آگئی۔ ان حضرات کی اسی قسم کی انہونی باتوں پر نکیر ان کے لیے سوہان روح بن جاتی ہے۔ چنانچہ معمولی نقد وتبصرہ بھی ان کے لیے قابل برداشت ہوجاتاہے۔ خواہ ان باتوں میں کتاب وسنت سے شدید مخالفت کیوں نہ پائی جاتی ہو، کیونکہ ظاہر بیں اور واہمہ پرست لوگوں کوکتاب وسنت سے مخالفت بڑی جلدی نظر آجاتی ہے لیکن ان باطن بیں، دوررس نگاہوں اور اعلی فقہی بصیرت وبصارت کے ھاملین فقہاء جوحقیقت میں رزم شناس اور مرض شناس ہوتے ہیں اپنے گہرے امعان ونظر اور بہت زیادہ تحقیق وتدقیق کے بعد اس قسم کی انہونی اورعقل سلیم سے بالاتر باتوں کو بھی کتاب وسنت کےموافق اور عین صواب پاتے ہیں۔ لہٰذا اس قسم کی غیر معقول باتوں پر نکیر کرنے والوں خودین کی صحیح معرفت اور کتاب وسنت کےصحیح تفقہ سے عاری اور نابلد تصور کرتے ہیں۔ خواہ وہ امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری کی ہی شخصیت ہی کیوں نہ ہو۔ بلکہ فتنوں اور ضلالات وگمراہیوں کا باعث قرار دیتے ہیں۔ ہم مسکین لوگ اس قسم کی باتوں کو بوالعجی کے سوا اور کیانام دے سکتے ہیں جن میں دین کے صاف ستھرے مسائل کوچوں چوں کا مربہ بناکر رکھ دیاگیاہے۔