کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 292
کرے) جوکچھ بھی کیا، کیا ہم ان کی باتوں کے مکلف ہیں، اور کیا اس طرح کی مستحیل اور ناممکن باتوں کی تعلیم وتعلم سے ہم کچھ حاصل کرسکتے ہیں ؟ جن کے ذکر ہی سے انسان کا سر مارے شرم کے جھک جائے۔ ہم اسے عبث اور بے کار سمجھتے ہیں، چہ جائیکہ ان کو دین کا جزء قرار دیں۔ ہوسکتا ہے ابوبکر غازی پوری جیسے لوگ ان کی گردان سےا پنے ذہن ودماغ کو جلابخشتے ہوں۔ یہ ان کو اختیار ہے۔ لیکن یہ حق ان کو ہر گز ہر گز نہیں حاصل ہے کہ اگر کوئی ان باتوں کو تسلیم نہ کرتا ہو تو اسے بے سین، آزاد مشرب اور لامذہب جیسے ناموں سے موسوم کریں۔ یہ بھی واضح کردینا مناسب ہوگا کہ اس قسم کے مسائل کی نسبت ائمہ متبوعین کی جانب کس طرح مناسب اور درست نہیں ے۔ اگر فقہ کی کتابوں میں کوئی مسئلہ ان کےحوالے سے مذکور بھی ہو پھر بھی ان کے مقام ومرتبہ اور ان کی جلالت علمی کے پیش نظر ہم ان کوان باتوں سے بہت ہی بلند وبالا تصور کرتے ہیں۔ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور علومرتبت کا پاس نہیں رکھا گیا اور آپ کی وعید شدید کے باوجود امت کے سادہ لوح یا غرض مند لوگوں نے بہت سی باتیں گھڑ کر آپ کی جانب منسوب کردیں تو امت کی دیگر ہستیاں کیونکر محفوظ رہ سکتی ہیں۔ ایسی صورت میں ہمارا فریضہ بنتا ہے نہ صرف شریعت اسلامیہ کو ایسی انہونی باتوں سے محفوظ رکھنے کی کوشش کریں بلکہ ائمہ کرام کی جانب ان کی نسبت سےبھی گریز کریں۔ اس قسم کی گھناؤنی اور انسانیت سوز باتیں۔ ۔ خواہ ان پر مذہبیت کا کتنا ہی برا خول کیوں نہ فٹ کردیاجائے۔ ۔ ۔ کوئی صاحب عقل سلہم کیا، چرس اور بھانگ کا رسیا بھی نہیں سوچ سکتا ۔ ا ن کے وقوع کی بات تو دور کی ہے، اگر بالفرض محال واقع بھی ہوگئیں توکیاایسے لوگوں کےلیے غسل جنابت کے واسطے پانی فراہم کیاجائے گا یا اس قماش کے لوگوں خودنیا سے رخصت کرنے کی سبیل سوچی جائے گی ؟ یہاں غازی پور یا ور ان کے ہم نواکہہ سکتے ہیں کہ سابقہ مسئلہ ہمارے مذہب کا