کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 289
ظاہر سی بات ہے بعض مشایخ سے امام بخاری رحمہ اللہ یا دیگر محدثین جن کی مثال عطارین کی ہے اور جو سطحی فکر کےحامل ہوتے ہیں اور ان میں گہرائی وگیرائی نہیں ہوتی، نہیں مراد ہوسکتے کہ علامہ عامر عثمانی جیسے اہل علم حضرات کویہ کہنے کا موقع مل جائے کہ محدثین کی مثال عطارین کی ہے جوبڑی بوٹیوں کو جانتے ہیں ان کو حفاظت سے رکھتے ہیں لیکن ان کو امراض کی تشخیص کی صلاحیت اور ان کے علاج کا علم نہیں ہوتا، یایہ کہ ان کے یہاں ژرف نگاہی اور فقہی بصیرت نہیں پائی جاتی، لہذا وہ اس قول کی گہرائی کوسمجھ نہیں پائے۔ بلکہ یہ مشایخ خود مسلک احناف سے تعلق رکھنے والے بقول علامہ عامر عثمانی زبردست ژرف نگاہ، بلا کے ذہین، موقف کئی نزاکتوں، استدلالت کی گہرائیوں اور فقاہت کی باریکیوں سے پوری طرح واقف حضرات ہیں۔ اللہ معلوم ان کے بیان کرنے پر موصوف نے ڈاکٹر محمد یونس ارشد صاحب کومطالعہ کی محدودیت، فکر کی سطحیت، ذژہن کی آلودگی، قلب کی بیماری اور قلم کی بے باکی جیسے مہذب القاب وآداب سے ونازتے ہوئے اپنے مطالعہ کی وسعت، فکر کی بلند ی، ذہن کی پاکیزگی، قلب کی صحت اور قلم کی شائستگی کامظاہرہ کیا ہے۔ اگر ان فقہاء کرام کی ان تصریحات سےا طمینان نہیں ہوتا تو اسی معنی ومفہوم کی تائید کے لیے حاشیۃ الطحطاوی کی یہ عبارت بھی ملاحظہ فرمالیں :
” ومثل ذلك لا يعلم غالبا إلا بالاطلاع أو الأخبار وهو نادر[1]
اورا س قسم کی باتیں عموماً اطلاع یا کسی کی خبر کے ذریعہ ہی جانی جاسکتی ہیں، ا ور یہ نادرالوقوع بات ہے“۔
کیااس کے بعد بھی یہ کہنے کی ضرورت یا گنجائش باقی رہ جاتی ہے کہ عضو سے مراد اردو کا عضو خاص نہیں بلکہ عربی کے عام اعضاء مراد ہیں، جو مطلع ہوئے بغیر یا کسی کے بتلائے
[1] حاشیہ الطحطاوی (ص۱۷۵)