کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 286
کرنے کی بات کہی گئی ہے۔ بڑے سر والے کو مقدم کرنے کا فلسفہ اسی کتاب میں اسی طرح بیان کیاگیاہے : لِأَنَّهُ يَدُلُّ عَلَى كِبَرِ الْعَقْلِ يَعْنِي مَعَ مُنَاسَبَةِ الْأَعْضَاءِ لَهُ، وَإِلَّا فَلَوْ فَحُشَ الرَّأْسُ كِبَرًا وَالْأَعْضَاءُ صِغَرًا كَانَ دَلَالَةً عَلَى اخْتِلَالِ تَرْكِيبِ مِزَاجِهِ الْمُسْتَلْزِمِ لِعَدَمِ اعْتِدَالِ عَقْلِهِ[1] یعنی سر کا بڑا ہونا زیادتی عقل کی علامت ہے، [2] لیکن دیگر اعضاء کے ساتھ اس کا تناسب برقرار رہے، ورنہ اگرسر بہت بڑا ہو اور دیگر اعضاء بہت چھوٹے ہوں ےو یہ اس کے مزاج کی ناہموار ی کی علامت ہوگی جواس کے عقل کی بے اعتدالی کومستلزم ہے۔ اس حقیقت سےموصوف غازی وپری جیسے بڑے سر والے ہی پردہ ہٹاسکتے ہیں، اور انہی کو اس کا حق بھی پہنچتا ہے کہ بڑے سروالے لازمی طور پر کافی عقلمند ہوتے ہیں۔ بہرحال سابقہ تمام امور کوحلق سے نیچے اتاراجاسکتاہے خواہ اس میں کتنی ہوا خیزی اور مضحکہ پن پایاجاتا ہو، لیکن اس بڑے سر والے ”ثم الأکبر رأسا“ کے ساتھ ایک مزید دم چھلہ لگاہواہے، جوکسی طرح کسی بھی انسان کےحلق سے اترنے والانہیں ہے۔ چونکہ مسلک احناف کی کتابوں میں یہ چیز مذکور ہےاس لیے ماننا پڑے گا کہ یہ غازی پوری صاحب کے حلق سے ضرور اترے گا اور بآسانی اترے گا۔ ورنہ ہم ان کے بارے میں بھی یہی حسن ظن رکھتے ہیں کہ وہ بھی اس کو بآسانی اترےگا۔ ورنہ ہم ان کے بارے میں بھی یہی حسن ظن رکھتے ہیں کہ وہ بھی اس کو بآسانی حلق سے نہیں اتارسکتے۔ ا ور شاید یہی وجہ ہے کہ مختلف تاویلات کے ذریعہ زبردستی اس کو دوسرا معنی پہنانے کی کوشش کررہے ہیں جس کی تائید توکتب لغت سے ہوتی ہے، نہ ہی ان کی نحو میر اور ہدایت النحو سےا ور نہ ہی سیاق وسباق سے، بلکہ ان کے اعلی ژرف نگاہ فقہاء کرام نے بھی وہی معنی متعین کیاہے جس کو عام لوگوں نے سمجھا ہے، اور وہ ہے ”والأصغر عضوا“ یعنی جس امام صاحب کا سر سب
[1] ردالمختار (۲/۲۵۲) [2] ہوسکتاہے اس کے سرمیں گودازیادہ ہوتاہو، ا ور شاید یہی وجہ ہے کہ کہاجاتاہے”سربڑا سردار کا “۔