کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 283
قارئین کرام ! ملاحظہ فرمائیں کتنی جرأت اور دیدہ دلیری کے ساتھ ایک حدیث کے ساتھ مخول اورا ستہزاء کوروارکھاگیا ہے۔ اگر یہی موقف ان کے کسی امام یاعالم کے فتوی اور ان کی رائے کےساتھ اختیار کیاجائے توقیامت ٹوٹ پڑے گی۔ بلکہ ادب واحترام کے دائرہ میں رہ کر محض نقد وتبصرہ سے کام لیاجائے تو بھی اس کو برداشت کرنے کی ان کےا ندرا ستطاعت نہیں ہے۔ بلکہ امام بخاری رحمہ اللہ جیسے امیرالمومنین فی الحدیث کو بھی بدظنی کا شکار، عدم فہم قرار دیتے ہوئےا مام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کےا قوال وآراء پر ان کے قند وتبصرہ کو بے بنیاد، انتہائی غلط، ا ور لغو بدظنی پر محمول کیاجاتاہے۔ [1]
بات طویل ہوتی جارہی ہے، آئیے ذرا مذکورہ ترتیب پر بھی ایک طائرہ نظر ڈال کر اس کی حقیقت واہمیت سے بھی آگاہی حاصل کرلی جائے۔
مستحق امامت کےمراتب اور اس کے درجات کی ترتیب میں فقہاء کرام نے حدیث رسول کی موافقت کی یا مخالفت ؟ اس کا فیصلہ بقول عامر عثمانی ہماشماکاکام نہیں ہے، بلکہ اس کے لیے اللہ تعالیٰ اپنےخاص بندوں کو پیدا فرمائے گا جومخصوص صفات کے ھامل ہوں گے۔ فی الوقت ایسے لوگوں کا وجود روئے زمین پر نہیں ہے۔ لیکن ترتیب میں جس الٹ پلٹ، ہیر پھیر اور تغیر وتبدل سے کام لیاگیاہے وہ بھی کم تعجب خیز نہیں ہے۔ پھر بھی ہم اس اختلاف اورا لٹ پھیر کو فی الحال نظر انداز کرتے ہوئے جن چیزوں کو ترتیب میں بنیاد بنایاگیاان پر نظر ڈالتے ہیں توہمیں وہ حددرجہ مضحکہ خیز معلوم ہوتی ہیں، اور ان میں کوئی ربط نہیں دکھائی دیتا۔ امامت میں امام کےحسن وجمال اور اس کے چہرہ کی خوبصورتی کاکیادخل ہے ؟ کہیں صوفیاء کرام کی جانب سےپیش کی جانے والی من گھڑت اور موضوع حدیث ”النظر الی الوجه الحسن یجلو البصر “[2]
”إِنَّ اللهَ لَا يَنْظُرُ إِلَى صُوَرِكُمْ وَأَمْوَالِكُمْ، وَلَكِنْ يَنْظُرُ إِلَى قُلُوبِكُمْ
[1] ملاحظہ ہو”ماہنامہ تجلی دیوبند(ڈاک نمبر) ۱۹۷۲ء۔
[2]