کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 282
حدیث پرعمل کرتے ہوئےان کا بھی یہی مذہب ہونا چاہیے کہ اگر نماز میں امام کاچوتڑ کھل جایاکرے تو بلاکراہت وہ نماز جائز ہو، ا ب مجھے معلوم نہیں کہ اس بارے میں ان کا مذہب کیاہے؟ آیا چوتڑکھلے امام کے پیچھے ان کی نماز بلاکراہت صحیح ہوجاتی ہے یاکہ نہیں، مجھے اس بارے میں صراحت نظر نہیں آئی، غیر مقلدین حضرات اس صحیح حدیث کو سامنے رکھتے ہوئے ذرااس کی وضاحت فرمادیں ہم ان کے ممنون ہوں گے “۔
اسی پر بس نہیں، بلکہ اس کے بعد بھی اپنی غضب کی ژرف نگاہی اور اعلی فقہی بصیرت کاسکہ جماتے ہوئے اور اس حدیث کوموقوف کےحکم میں رکھتے ہوئے اہلحدیثوں پر اپنے زعم کےمطابق ایک دوسری کاری ضرب لگانے کی کوشش کی ہے، چنانچہ فرماتے ہیں :
”اور عجیب تر بات تو یہ ہے کہ انہوں نے ( اہلحدیثوں نے) اس مسئلہ میں اس حدیث سے استدلال کیسے کیا؟ جبکہ ان کا اصول تویہ ہے :”صحابہ کے افعال سے حجت قائم نہیں ہوسکتی “۔ [1]
ہم موصوف غازی پوری کی اعلی فقہی بصیرت پر ان کو داد دئیے بغیر نہیں رہ سکتے کہ انہوں نے اپنی اس بصیرت کو اپنے مذہب کی فقہی کتابوں کےمطالعہ سے چار چاند لگادیاہے، طہر متخلل اور حلالہ کے مباحث کی گردن سے اپنی عقل کے چودھویں طبق کو روشن کرڈالاہے ۔ موصوف کو حدیث کی ایک روایت میں لفظ”است“( جس کے معنی سرین کےہیں ) مل گیا اور اس کو ایسا لے اڑے کہ مکمل حدیث پر غور کرنے اور یہ معلوم کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی کہ آیا یہ حدیث موقوف ہے یا مرفوع کےحکم میں ہے ؟ حدیث میں وارد لفظ ”است“ کو لے کر اہلحدیثوں کی نیش زنی کرنے بیٹھ گئے۔ لیکن اپنے فقہاء کرام کے یہاں مستحق امامت کے مراتب کی تحدید وتعیین میں بیوی کی خوبصورتی اور حسن جمال سمیت آلہ تناسل کی لمبائی چوڑائی کی پیمائش پرکسی قسم کاعاریا شرمندگی نہیں محسوس ہوئی، بلکہ غلط طریقے سےا س کا دفاع کرنے بیٹھے گئے۔
[1] مسائل غیرمقلدین (ص۱۷۹۔ ۱۸۲)