کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 281
یعنی :”جوکچھ مجھے قرآن کریم سے یاد تھا اسے میں سب سے بہترطریقے سے پڑھنے والاتھا، لہذا لوگوں نے مجھے امامت کے لیے آگے بڑھادیاتومیں لوگوں کی امامت کیاکرتاتھا، ا ور مجھ پرا یک چھوٹی سی زرد رنگ کی چادر ہوا کرتی تھی سجدے میں جاتے وقت بے ستری ہوجاتی تھی، ایک عورت نے لوگوں سے کہا کہ : اپنےقاری کی شرم گاہ کو ہم سے چھپا کررکھو، چنانچہ لوگوں نے میرے لیے ایک عمانی قمیص خریدی۔ ۔ ۔ “ نیش زنی کرتے ہوئے فقیہ سید واڑہ فرماتے ہیں : ”اگرغیرمقلد ین کا اس مسئلہ میں مستدل یہی حدیث (اور اس کے علاوہ کوئی دوسری حدیث ان کے پاس ہے بھی نہیں [1]توپھر انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ اس پوری
[1] نے اپنی سنن، کتاب الصلاۃ۔ باب من أحق بالامامۃ(صحیح سنن ابی دادو اللبانی ۱/۱۱۶) میں روایت کیاہے، مذکورہ الفاظ ابوداود ہی کےہیں ۔ اس موضوع پرتفصیلی گفتگو آئندہ صفحات میں ”دعویٔ احترام صحابہ اور اس کی حقیقت ” کے عنوان کے تحت پیش کی جائے گی۔  الحمدللہ اہلحدیثوں کےپاس ایک ہی سہی حدیث رسول موجود تو ہے، ا س کی صحت کو تسلیم کرنےکےبعد آپ چاہے جتنا اس میں کیڑا نکالیں، وہ ہمارے لیے دلیل بلکہ ایک قوی حجت کی حیثیت رکھتی ہے، ذرا آپ اپنے فقہاء کرام کی بیان کردہ امامت کی ترتیب پر ایک نہیں آدھی حدیث پیش کردیجیے جس میں سرسمیت عضو تناسل یا بقول آپ کےتمام اعجاء کی پیمائش کی گئی ہو تو ہم بھی آپ کے بہت ممنون ہوں گے، جبکہ آپ کے یہاں ایسے جواں ہمت افراد کی کمی نہیں ہے جوتقلید کےثبوت میں مبینہ طور پرا یسی آیتیں پیش کرسکتے ہیں جومتدا ول قرآن میں موجود نہیں ہیں، ہوسکتا ہے دیوبند کی جنتی لائبریری میں کوئی نسخہ ہوجس میں اس طرح کی آیت پائی جاتی ہو، جیساکہ کتب حدیث کے بعض ایسے نسخے وہاں موجود ہیں جن سے ان کے بعض مخصوص مسائل کی تائید ہوتی ہے، ا ور جن کو بنیاد بناکر ایک محدث کبیر نےنصوص حدیث میں تصرف بھی کیاہے، ا ور ایسے بھی باہمت افراد کی کمی نہیں ہے جو اپنے امام کی منقبت اور دوسرے امام کی مذمت میں حدیث رسول بھی گھڑ کر پیش کرسکتے ہیں اور ان کے موضوع ہونے کی وضاحت وصراحت کے بعد بھی زبردست ژرف نگاہ فقہاء کرام اس کو اپنی کتابوں کی زینت بناتےہیں۔ ا ور کیا کسی مسألے کے ثبوت میں ایک حدیث کافی نہیں ہے ؟ ا س کے لیے دسیوں، بیسیوں احادیث کی ضرورت ہوتی ہے، کیا انصاف اسی کو کہتے ہیں کہ اگر اہلحدیث کسی حدیث کو سامنے رکھ کر اس کے مطابق اپنامسلک اور اپنی رائے بناتے ہیںا ور آپ کے بقول اس کےعلاوہ کوئی حدیث بھی نہیں پائی جاتی، تو قابل ملامت ٹھہرتے ہیں لیکن آپ کاحال یہ ہے کہ واضح حدیث کے ہوتے ہوئے اگر امام صاحب یا آپ کے مذہب سے تعلق رکھنے والے بعد کےعلماء مبینہ طور پر اسحدیث کےخلاف کوئی فتوی صادر کردیتے ہیں تو آپ کے لیے واجب القبول ہوجاتاہے، اس پر عمل کرکے نہ صرف جنت کتے آپ مستحق بنتےہیں بلکہ سب سے بڑے مذہبی ہونے کا دنگا پیٹتے ہیں۔