کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 280
چاشنی کچھ اور ہی ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں زیادہ ذوق وشوق کے ساتھ عمل کرنے کی جدوجہد کرتاہے ۔ ساتھ ہی ہم اپنی کرم فرما حضرات سے اس بات کےبھی خواہشمند ہیں کہ وہ برائے مہربانی یہ بھی وضاحت فرمادیتے کہ کیا واضح فرمان نبوی کے ہوتے ہوئے فقہاء کرام کی ان متنازع ومختلف فیہ ترتیب کو اپنا کردار اور ان کی تقلید کرکے اللہ ورسول کے احکام تک پہنچاجاسکتاہے ؟ [1]اورکیونکران مختلف ومتنازع ترتیبات پرعمل ممکن ہوسکتا ہے؟ جبکہ ایک ہی ترتیب پرعمل حددرجہ دشوار معلوم ہوتاہے۔ شاید اسے ہماری کج فہمی وکج بحثی، ضد اور منہ زوری پر محمول کیاجائے۔ لہٰذا کرم فرماکر صرف ایک علامہ جباوی کی بیان کردہ ترتیب ہی پرعمل کرکے دکھلادیں تو ہم ان کی ژرف نگاہی، رمز شناسی اور فقہی اعلی بصیرت کا اعتراف کرلیں گے۔ کم از کم سید واڑہ یا ازہر ہندمیں اس پرضرور عمل کیاجاتا ہوگا، ا ور طلبہ کو اس کی عملی مشق بھی کرائی جاتی ہوگی۔ یہ اس بناء پرعرض کیاجاتاہوگا، ا ور طلبہ کو اس کی عملی مشق بھی کرائی جاتی ہوگی۔ یہ اس بناء پرعرض کیاجارہاہے کہ ان حضرات کی جانب سے خصوصی طور پر فقیہ سید واڑہا ور ان کے جی حضور یوں کی جانب سے بڑے شدومد کے ساتھ تمام احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم پرعمل اور ان کی تطبیق کا اہلحدیثوں سے مطالبہ کیاجاتاہے تاکہ ان کا دعوئ عمل بالحدیث ان کی نظر میں صحیح ثابت ہوسکے۔ چنانچہ نابالغ لڑکے کی امامت کے جواز کا فتوی فتاوی نذیریہ( ۱/۴۰۷) سے عادت کےمطابق کتربیونت کرتے ہوئے مولوی محمد ابوبکر غازی پوری نے اپنی ایک پوتھی میں نقل کیاہے۔ ا س فتوی میں مجیب نے حضرت عمروبن سلمہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے استدلال کیاہے: حدیث میں ہے : كُنْتُ أَتَلَقَّى مِنَ الرُّكْبَانِ، فَقَدَّمُونِي بَيْنَ أَيْدِيهِمْ، وَأَنَا ابْنُ سِتٍّ أَوْ سَبْعِ سِنِينَ، وَكَانَتْ عَلَيَّ بُرْدَةٌ، كُنْتُ إِذَا سَجَدْتُ تَقَلَّصَتْ عَنِّي، فَقَالَتِ امْرَأَةٌ مِنَ الحَيِّ: أَلاَ تُغَطُّوا عَنَّا اسْتَ قَارِئِكُمْ؟ فَاشْتَرَوْا فَقَطَعُوا لِي قَمِيصًا[2]
[1] علامہ عامرعثمانی رحمہ اللہ کا یہی کہناہے۔ [2] اس حدیث کو امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح کتاب المغازی باب غزوۃ الفتح (۸/۲۲ حدیث نمبر ۴۳۰۲