کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 28
پائی جاتی ہے ؟ کہیں قیاس مع الفارق تونہیں ؟ آپ تو اپنے قیاس کا ماہر اورا س کا ٹھیکیدار سمجھتے ہیں۔ ا ور فقہ حنفی کی گردان کرتے رہنے سے آپ کی عقل کے چودہ طبق روشن ہیں۔ اس کا آپ کوپورے فخر کے ساتھ اعتراف ہے۔ ازواج مطہرات کی مثال کوبھی آپ کے سامنے رکھتے، جن کو قرآن کریم میں ﴿وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ ﴾[1] کہاگیاہے، ا ور شروع اسلام سے ہی تمام مسلمان آپ کی ازواج مطہرات کو”امہات المومنین “ کہتے چلے آئے ہیں۔ حالانکہ ایک دوسری آیت میں بصراحت وارد ہواہے کہ ماں وہی ہے جس کے بطن سے انسان تولد ہواہے :
﴿إِنْ أُمَّهَاتُهُمْ إِلَّا اللَّائِي وَلَدْنَهُمْ﴾ [2]
کیااس آیت کو بنیاد بناکر آپ جیسے پیکر شرم وحیا ء کا لبادہ اوڑھ کر کچھ ارشاد فرمانے کی جسارت کریں گے ؟ کیونکہ جوسوال آپ نے والد کہنے میں پیدا کیاہے وہی سوال کسی کوماں کہنے میں بھی اٹھایاجاسکتا ہے، اور شاید یہاں یہ ذکر کردینا بجانہیں ہوگا کہ بعض شاذ قرأتوں میں ﴿وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ ﴾ کے ماقبل یامابعد "ھُوَأب َلھُمٗ" کا بھی ذکر ملتا ہے۔ [3]
شاذ قرأتوں کی بنیاد پر مسائل کا استنباط نہیں کیاجاسکتا لیکن آیات کی تفسیر میں ان سے استئناس کیاجاسکتا ہےا ور مدد لی جاسکتی ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی مرفوع حدیث کی طرف بھی اشارہ حدیث اور علم حدیث کے شائقین کےلیے مفید ہوگا (ان شاء اللہ ) جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا : "انما أنا لکم مثل الوالد لولدہ ....."الحدیث ۔
(میں تمہارے لیے ایسے ہی ہوں جیسے باپ اپنے بیٹے کےلیے ہوتاہے )
[1] سورۃ الاحزاب (آیت ۶) علامہ شوکانی مذکورہ آیت کی تفسیر میں فرماتےہیں :أی مثل أمھاتھم فی الحکم بالتحریم ومنزلات منزلتھن فی استحقاق العظیم “اور اموات کو تملق نہیں بلکہ ان سے حرمت نکاح اور ان کی تعظیم وتوقیر کے ساتھ مختص مانتے ہیں، ملاحظہ ہوفتح القدیر (ص۴/۲۶۴)
[2] سورۃ المجادلۃ (آیت ۲)
[3] ملاحظہ ہو: تفسیر ابن جریر الطہری (۲۱/۱۲۲)، تفسیر القرطبی (۱۴/۱۳۳)، فتح القدیر (۴/۲۶۴)