کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 279
تھوڑےسے غور عفکر اور نقد ونظر کے بعد بھی قرآن وسنت کےخلاف محسوس ہوتے ہیں لیکن جب زیادہ امعان نظر اور تفحص اورتحقیق وتدقیق سے کام لیاجائے توعین حق ثابت ہوتے ہیں “۔ [1]
ہم نہایت ادب سے پوچھنا چاہیں گے کہ آخر ایسی کیاضرورت پڑگئی جس نے بقول آپ کے ائمہ کرام کو ایسی فقہی مسائل بیان کرنے پرمجبور کردیا کہ تھوڑے غور وفکر اور نقد ونظر کے بعد بھی وہ مخالف کتاب وسنت نظر آئیں ۔ جبکہ ہو نا یہ چاہیے تھا کہ کتاب وسنت کے جن مسائل میں پیچیدگی محسوس ہوتی ہو انہیں علماء کرام اپنی فقہی بصیرت سے کام لیتے ہوئےآسان بناکر پیش کردیں، نہ کہ اس کے برعکس کتاب وسنت سے متصادم معلوم ہوں۔ ا ن کی کتاب وسنت سے موافقت جاننے کےلیے تھوڑی نہیں بلکہ بہت ہی تحقیق وتدقیق اور امعان نظر کی ضرورت پڑے۔ یہ دین کوآسان نہیں اور مشکل بناناہوا۔ خیر ہم علامہ عامر عثمانی کی حقیقت بیانی (؟) کوسامنے کوسامنے رکھ کر یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ جتنا چاہیں غور وفکر، بحث وتحقیق اور امعان نظر سے کام لے لیں لیکن امامت کے سلسلے میں فقہاء کرام کی بیان کردہ مختلف ومتنازع بلکہ متضاد ترتیبوں کی یا ان میں سے کم از کم ایک ہی ترتیب کی کتاب وسنت سے موافقت بیان کردیں، توہم ان کے بہت ہی مشکور ہوں گے، ا ور ان شاء اللہ دین کا ایک برا کام ہوگا، ا س پر وہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے اجر وثواب کے مستحق ہوں گے۔ یایہ کہ اس کے پوچھنے کا حق بھی اسی کو ملے گا جوعلامہ عامر عثمانی کی بیان کردہ صفات کا حامل ہوگا، ا ور ہماشاکو کتاب وسنت سےا ن مسائل کی موافقت یا ان کے عین حق اور عین صواب ہونے کی وضاحت طلب کرنے کی اجازت بھی نہیں ہے ۔ توکیا اس کو دین میں تحکم کا نام نہیں دیاجائےگا؟ جبکہ قرآن کریم جابجا غور وفکر، تفکر وتدبر، عقل وبصیرت سے کام لینے اور عبرت ونصیحت حاصل کرنے کا حکم دیتاہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ انسان جب کسی مسئلہ کو اس کے دلائل کو ساتھ سمجھ کر اس پرعمل کرنے کی کوشش کرتا ہے تواس کی لذت اور اس کی
[1] ملاحظہ ہو۔ ڈاک نمبر، دسمبر 1972ء