کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 278
کےا سی اصول سے متأثر ہوکر علامہ عامر عثمانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
”اہل حدیث کا عام طرز یہ ہے کہ وہ کسی موضوع پر ایک حدیث سامنے رکھ دیتے ہیں کہ لیجیے اس میں تویہ حکم ہے اور فقہ حنفی اس کے برخلاف یوں کہتی ہے۔ اب کم علم لوگ کیا سمجھیں کہ اصل حقیقت کیاہے ؟ وہ تو اسی دھوکےمیں آجائیں گے کہ واقعہ حنفی کے بعض مسئلے حدیث کےخلاف ہیں۔ مگر اصل حقیقت یہ ہوتی ہے کہ دوسری متعدد حدیثوں سےا س حدیث کا وہ مفہوم متعین نہیں ہوتا جویہ کاریگر حضرات باور کرانا چاہتے ہیں، یایہ حدیث منسوخ ہوتی ہے، یااس حدیث کی صحت میں کچھ گڑ بڑ ہوتی ہے، یااس میں کوئی وقتی حکم بیان ہوتاہےاورعام حکم اس سے مختلف دوسری کسی حدیث میں یا آیت میں موجود ہوتا ہے“۔ [1]
علامہ عامر عثمانی کی اس حقیقت بیان(؟) کے پس منظر میں مذکورہ حدیث کی حیثیت بھی اگر ازہر ہند یا سید واڑہ کی مجلس شورائی کی جانب سے بیان کردی جاتی تو بہت ہی بہتر ہوتا اور ہم ان کے شکر گزار ہوتے۔ یا امتیوں سےا س کی بھی صلاحیت سلب کر لی گئی ہے کہ وہ کسی مسئلے میں حکماء امت کے بیان کردہ آراء وفیصلوں کے دلائل کی معرفت بھی نہیں حاصل کرسکتے اور نہ اس کو اس کا اختیار ہے۔ یہ صرف ژرف نگاہ، رمز شناس فقہاء امت وطبیبان ملت کے ساتھ مخصوص ہے۔ اگر یہی بات ہے تو دین اسلام دین مبین نہیں بلکہ دین باطنی ہوکر رہ جائےگا جس میں متبعین کوبھیڑ بکریوں کے طرح اپنے متبوعین کے پیچھے آنکھ بند کر کے چلنے کا حکم دیاجاتاہے، چوں یا چرا کی ادنی گنجائش نہیں ہوتی، اگرخدا نخواستہ ان کی زبان سے کیوں یا کیا نکل گیا تو ہلاکت وتباہی ان کے قدم چومتی ہے ؟
ائمہ کرام کے بیان کردہ فقہی مسائل اور کتاب وسنت کے مابین عدم تصادم کی وضاحت کرتے ہوئے علامہ عامر عثمانی نے یہ جو تحریر فرمایاہے :
”فقہ کے بہتیرے مسائل ایسے ہوتے ہیں جو صرف بادی النظر ہی میں نہیں بلکہ
[1] ماہنامہ تجلی (ڈاک نمبر ) دسمبر ۱۹۷۲ء دیوبندیہ