کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 277
یعنی :”۔ ۔ ۔ ۔ پھر حسین وجمیل چہرہ والا، پھر حسب ونسب میں سب سے بڑھا ہوا، پھر سب سے اچھی آواز والا، پھر سب سے حسین بیوی والا، پھر سب سے زیادہ مال ودولت والا، پھر سب سے زیادہ جاہ ومنصب والا۔ ۔ ۔، پھر سب سے بڑے سر والا اور سب سے چھوٹے عضووالا، پھر مقیم کو مسافر پر‘پھر اصلی آزاد کو آزاد کیے گئے شخص پر، پھر حدیث (پیشاب، پاخانہ اور ہواخارج ہونے ) کی وجہ سے تیمم کرنے والے کو جنابت کی وجہ سے تیمم کرنے والے پر مقدم کیاجائے گا۔ ۔، اگر لوگوں میں اختلاف پایاجائے تواکثریت کی رائے کا اعتبار کیاجائے گا۔ ۔ ۔ “ اسی طرح مراقی الفلاح [1]میں بھی الٹ پھیر کرکے یہی ترتیب بیان کی گئی ہے۔ ان تمام ترتیبوں سے پہلے علامہ جباوی کی بیان کردہ ترتیب بھی آپ نے ملاحظہ کرلی ہے وہ بھی نظر میں رہے، ا س الٹ پھیر اور غیر معمولی اختلاف [2] کی حقیقت سے پردہ وہی ژرف نگاہ بلا کے ذہین، علم ومعرفت کے دریا، حاضر جواب وبیدار مغز، فقہی بصارت وبصیرت کے مینار فقہاء کرام ہی اٹھاسکتے ہیں جن کی قرآن اور تمام ذخیرۂ احادیث پر نظر ہے، مفسرین ومحدثین اوراور فقہائے سلف کی آراء جن کے ملاحظہ سے گزری ہیں، جودلائل کے ضعف وقوت کا ادراک کرسکتے ہیں اور علمی اسرار ومعارف کوسمجھنے میں اعلی استعداد کےحامل ہیں، یہی لوگ بتلاسکتے ہیں کہ مذکورہ حدیث رسول کا کیامفہوم ہے ؟ ویسے علامہ کرخی رحمہ اللہ نے بہت پہلے ایک قاعدہ کلیہ بیان کردیاہے کہ ہر وہ آیت یاحدیث جوہمارے (یعنی حنفی) اصحاب کےقول کےخلاف ہواسے نسخ پرمحمول کیاجائے گا۔ ا ور شاید علامہ کرخی
[1] مراقی الفلاح (ص۱۷۴ علی ھاشمی الطحاوی، ط ا:المکتبة الازھریة، القاھرة ) [2] یہاں بصدا حترام سید واڑہ کی شورائی مجلس کے رئیس اعظم تفقہ مآب مولوی ابوبکر غازی پوری صاحب سے پوچھنا چاہیں گے کہ آپ بعض مسائل میں علماء اہلحدیث کی مختلف تحقیقات یا ان کے نقطہ نظر کے اختلاف کو تجاد بیانی پر محمول کرتے ہوئے اور الفاظ کے ساتھ شعبدہ بازی دکھلاتے ہوئے محو حیرت وتعجب ہوجاتے ہیں، ا ور گن کاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اور الفاظ کے ساتھ شعبدہ بازی دکھلاتے ہوئے محو حیرت وتعجب ہوجاتے ہیں اور فن کاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے علماء اہلحدیث پر آنسو بہاتے ہیں لیکن آپ کو اپنے رمزشنا س۔ دقیقہ سنج اور غضب کے ژرف نگاہ فقہاء کرام کےاس ایک مسئلے میں اتنے متضاد اقوال اور غیر معمولی اختلاف پر ذرا بھی تعجب یا حیرت نہیں ہوتی، ا ور ان میں تضاد بیانی نظر نہیں آتی بلکہ تقلید کے ذریعے آپ امت کی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے کا دعوی بھی کرتے ہیں۔