کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 274
ہم یہاں مذکورہ ترتیب کی تفصیل سے قبل بادل نخواستہ قارئین کرام کی توجہ اس جانب بھی مبذول کردینا مناسب سمجھتے ہیں کہ فقہاء کرام جن کو اللہ تعالیٰ نے بلا کی ذہانت، غضب کی ژرف نگاہی، زبردست تفقہ، حاضر جوابی، بیدار مغزی ا ور علمی بصیرت سے خصوصی طور پر نوازاتھا جس کی وجہ سے انہیں ماہرین اطباء قرار [1] دیتے ہوئے ان کی تقلید کو اللہ اور رسول کےا حکام تک پہنچنے کا وسیلہ اور ذریعہ سمجھاجاتاہے۔ ۔ ۔ ۔ ہی فیصلہ کرسکتے ہیں کہ مذکورہ ترتیب فرمان رسول کے عین مطابق ہے یاعین مخالف۔ کیونکہ اس کا فیصلہ ہما شما کا کام نہیں ہے، بلکہ ان کا کام ہے جو اپنے موقف کی نزاکتوں، اپنے استدلالات کی گہرائیوں اور قفاہت کی باریکیوں کوپوری طرح سمجھتے اور جانتے ہیں۔ اسی چیز کو نہ سمجھنے کی وجہ سے امام بخاری رحمہ اللہ جیسے امیرا لمومنین فی الحدیث نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے بدظنی کا شکار ہوکر ان کو کھل کر اور کنایۃً ہدف ملامت بنانے کی جسارت کی۔ حالانکہ ان کی بدظنی بقول علامہ عامر عثمانی رحمہ اللہ بے بنیاد، ا نتہائی غلط اور لغو تھی ۔ وہ امام صاحب کے قول کی گہرائی کوسمجھ نہیں پائے تھے، ا ور بلاوجہ آپ سے انہوں نے بیر مول لے لیاتھا۔ [2]
لہٰذا مذکورہ ترتیب کی نزاکت، ا س کی گہرائی اور اس کی باریکیوں کوفقہاء کرام ہی سمجھ سکتے ہیں ہمیں زبان کھولنے کی نہ تو اجازت ہے اور نہ ضرورت۔ ا گر اس کی جسارت کرتے بھی ہیں توہمیں فقیہان سید واڑہ کی جانب سے عذاب الٰہی کا مژدہ سننا پڑے گا جس کی ہمارے اندر تاب نہیں ہے۔ لیکن اتناضرور عرض کریں گے کہ اگر حکیمانہ امت بلفظ دیگر فقیہان ملت نے امامت جیسے اہم مسئلے کا علاج بے مثل اپنی غضب کی ژرف نگاہی اور بلاکی ذہانت کی وجہ سے ڈھونڈ نکالاہے توا س میں اتنا اختلاف اورا تنی افراتفری کیوں
[1] یہ مقولہ اہل تقلید کےحلقہ میں کافی معروف ہے کہ ”محدثین کی مثال عطار کی ہے، ا ور فقہاء کی مثال طبیب کی “اس کا تذکرۃ علامہ عامر عثمانی رحمہ اللہ نے بھی بڑے شدومد کے ساتھ کیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: تجلی ڈاک نمبر، دسمبر ۱۹۷۲ء ) اس مقولہ کی حقیقت جاننےکےلیے ملاحظہ فرمائیں : مولانا محمدا سماعیل گوجرانوالہ کی ”تحریک آزادیٔ فکر“ (۱۳۹۔ ۱۳۸۔ مطبوعہ الدارالعلمیہ دہلی )
[2] ماہنامہ تجلی دیوبند (ڈاک نمبر دسمبر۱۹۷۲ء )