کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 272
۱۔ مستحق امامت اور اس کے درجات : [1]
حضرت ابومسعود بدی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے :
”يَؤُمُّ الْقَوْمَ أَقْرَؤُهُمْ لِكِتَابِ اللهِ، فَإِنْ كَانُوا فِي الْقِرَاءَةِ سَوَاءً، فَأَعْلَمُهُمْ بِالسُّنَّةِ، فَإِنْ كَانُوا فِي السُّنَّةِ سَوَاءً، فَأَقْدَمُهُمْ هِجْرَةً، فَإِنْ كَانُوا فِي الْهِجْرَةِ سَوَاءً، فَأَقْدَمُهُمْ سِلْمًا، وَلَا يَؤُمَّنَّ الرَّجُلُ الرَّجُلَ فِي سُلْطَانِهِ، وَلَا يَقْعُدْ فِي بَيْتِهِ عَلَى تَكْرِمَتِهِ إِلَّا بِإِذْنِهِ» قَالَ الْأَشَجُّ فِي رِوَايَتِهِ: مَكَانَ سِلْمًا سِنًّا“[2]
” یعنی لوگوں کی امامت ان میں کتاب اللہ کاسب سے زیادہ پڑھنے والا کرائے گا، اگر کتاب اللہ کے پڑھنے میں سب برابر ہوں گے تو سنت کا سب سے زیادہ علم رکھنے والا ان کی امامت کرائے گا، ا گر سنت کی معرفت اورا س کے علم میں سب برابر ہوں گے تو ان میں جس کو ہجرت میں سب پر سبقت حاصل ہوگی وہ امامت کرائے گا، اگر ہجرت میں بھی سب برابر ہوں گے تو عمر میں جس کو سب پر فوقیت حاصل ہوگی وہ امامت کرائے گا “۔
اس غیر مبہم بلکہ واضح ترین فرمان رسول کے بعد کیاکسی اجتہاد وقیاس کی ضرورت تھی؟ ہر گز نہیں۔ لیکن ”لااجتہاد مع النص“ کے مسلمہ اصول کے باوجود رائے وقیاس سے کام لیاگیا، ا ور ماہرین فقہ جن کو ایسے ماہرین اطباء سے تشبیہ دی جاتی ہے جو
[1] اس موضوع پر مختلف جوانب سے مختلف پرچوں اور کتابوں میں مختلف اہل قلم کی جانب سے تفصیلی بحث آچکی ہے، پھر بھی اس بحث ناپسندیدہ کا ذکر ناگزیر معلوم ہوتاہے۔ کیونکہ غیر واقعی تاویلات کے ذریعہ کتب فقہ کی اس ترتیب کوصحیح قراردینے کی کوشش کی جاتی ہے، اوراس پر نقد کرنے والوں کو فقہ ومعرفت سے عاری قرار دے کر جہالت کی سند عطا کی جاتی ہے، عدل وانصاف، سنجیدگی ومتانت اور ملت کو درپیش چیلنجوں کی دہائی دینے والوں سے نہایت ہی عاجزانہ درخواست ہے کہ صرف ہمیں ہی اس سلسلے میں نہ مطعون کیاجائے، بلکہ دوسری جانب بھی نظر عنایت کرتے ہوئے ان لوگوں کےرویہ اور موقف کوبھی سامنے رکھنا چاہیے، جو تقلید کودخول جنت کے لیے واجب ضروری نہ قرا ردینے کو فتنہ، ضلالت وگمراہی کازینہ قراردیتے ہیں، لہذا مذکورہ سطور کے ذریعہ ان کےا سی دعوی کی حقیقت کو عوام کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں، کسی کی تنقیص یا عیب جوئی ہمارا مقصد یا شیوہ نہیں ہے، ہم اللہ تعالیٰ سے ان امور سے اس کی پناہ طالب ہیں۔
[2] امام مسلم علیہ الرحمۃ نے اس حدیث کو روایت کیاہے، ملاحظہ ہو: صحیح مسلم کتاب المساجد، باب من أحق بالامامۃ ؟ (۱/۴۶۵ حدیث نمبر ۶۷۳)