کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 271
وہ رائےقیاس ہے جس کی مذمت کی گئی ہے۔ وقوع سے پہلے مسائل کو فرض کرکے ان کے بارے میں اجتہادکیاجائے، رونماہونے سے بیشتر ان کی شقیں نکالی جائیں، ا ن کی جزئیات پر بحث کی جائے، ظن وتخمین سے مشابہت رکھنے والے قیاس اور رأی کی بنیاد پر ان میں بحث وجستجو کی جائے، جمہور کاکہناہے کہ : اس طرح کےا مور سے شغل رکھنا درحقیقت سنتوں کومعطل کرنا، احادیث سے جہالت اور لاعلمی برتنے پر اکسانا اور اس کی ترغیب دلانا ہے“۔ [1]
یہ عصر حاضر کے کسی غیرمقلد(لا مذہبی ) ظاہر بیں، واہمہ پرست، فتنہ پرور، اور ائمہ کرام کی شان میں گستاخی کرنے والے کا قول نہیں ہے۔ بلکہ پانچویں صدی ہجری کی ایک قد آور شخصیت کا فرمان ہے، جس نے حدیث کی اول ترین کتاب موطا امام مالک کی شرح لکھی ہے۔ بلکہ اسے امام مالک رحمہ اللہ کے علم کا شارح قرار دینا بے جا نہ ہوگا۔ بہرحال ائمہ کرام رحمہم اللہ کی تصریحات اور ان کے بیانات سے خیالی وفرضی مسائل جن سے امت ابھی دوچار نہیں ہوئی ہے، ا ن سے اشتغال رکھنے کی سخت مذمت ثابت ہوتی ہے۔ ا س کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ بیشتر متأخرین فقہاء نےا س قسم کے وہمی وفرضی مسائل سے اپنی کتابیں بھردی ہیں، ا ور آج کل انہی کتابوں سے عقل روشن ہوتی ہے، دین میں تفقہ حاصل کیاجاتاہے۔ ا ور دعوی کیاجاتاہے کہ ان کتابوں سے عقل روشن ہوتی ہے، دین میں تفقہ حاصل ہوتاہے۔ شاید ائمہ سلف کو اس حقیقت سے آگاہی حاصل نہیں ہوسکی تھی، ورنہ وہ کبھی مسائل سے تعرض کو ناپسندیدگی نگاہ سے نہیں دیکھتے، ا ور نہ اپنے متبعین کو ان سے بچنے کی تلقین کرتے۔
اب آئیے ذرا فقاہت کے چند اچھوتے نمونے ملاحظہ کرلیں جن سے دعویٔ مذہبیت کی حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے، ا ور ان سے ترک تقلید کوفتنہ، یاضلالت وگمراہی کا زینہ قرار دینے والوں کے دعاوی باطلہ کی حقیقت بھی واضح ہوجائے گی۔
[1] جامع بیان العلم وفضلہ (۲/۱۳۹)