کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 270
نہ دیتے بلکہ فرماتے : چھوڑویہاں تک کہ واقع ہوجائے “۔ [1] حضرت مسروق رحمہ اللہ کا بیا ن ہے کہ آپ نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے کسی چیز کےمتعلق دریافت کیا، توحضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے پوچھا: کیا یہ چیز واقع ہوچکی ہے ؟ مسروق نے کہا : نہیں، تو حضرت ابی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہمیں اس طرح کے مسائل سے راحت دو، یہاں تک کہ واقع ہوجائیں، جب واقع ہوجائیں گی تو ہم اجتہاد کرکے اپنی رائے سے تمہیں باخبر کریں گے “۔ [2] اس نوعیت کے بیشمار اقوال وآثار صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مقنول ہیں، جن کو اہل علم نے اپنی کتابوں میں ذکر کیاہے۔ بلکہ جلیل القدر تابعی امام شعبی رحمہ اللہ سے منقول ہے، آپ قسم کھاکرکہتے :” اس قوم نے مسجد کو میرے لیے اتنا زیادہ مبغوض بنادیاہے کہ وہ میرے نزدیک میرے اپنے گھر کے کوڑے دان سے بھی زیادہ ناپسند ہوگئی ہے۔ آپ سے دریافت کیاگیا: اے عمر و! یہ کون لوگ ہیں ؟ توآپ نے فرمایا :”أرائی [3] لوگ ہیں “۔ [4] اس طرح کے متعدد آثار واقوال ذکر کرتے ہوئے علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ”جمہور اہل علم کا کہنا ہے کہ دین کے احکام میں ظن وتخمین اور استحسان کی بنیاد پر کوئی بات کہنا [5] پچیدہ مسائل اور مفروضات کی تعلیم وتعلم اور ان کےحفظ سے شغل رکھنا یہی
[1] الفقیه والمتفقه (۲/۷۔ ۹) [2] جامع بیان العلم وفضلہ (۲/۱۴۱) [3] أرائی :لفظ”أری“ کی جانب سے منسوب ہے، جس کے معنی ہیں ” میری رائے یہ ہے ؟۔ ۔ ۔ مفروضہ مسائل میں شغل رکھنے والے حضرات عموماً مسائل فرض کرکے ان کے متعلق یہی کہتے ہیں کہ ان کے بارے میں ہماری رائے یہ ہے۔ اسی بناء پر انہیں ”أرائی ”کہاجانے لگا۔ [4] جامع بیان العلم وفضلہ۔ [5] کتنی مضحکہ خیز بلکہ ستم ظریفی کی بات ہے کہ صحیح ترین احادیث کو اخبار آحاکہہ کر یا ان کو قرآن پر زیادتی کہہ کر یا اسی طرح کے دیگر مختلف حیلوں اور بہانوں سے پس پشت ڈال دیاجائے، ا ور اپنے ظن وتخمین اور استحسان کی بنیاد پر شریعت الہی میں شریعت سازی کوجائزہ سمجھا جائےا ور اس عمل کو اعلی درججہ کی فقہی بصیرت اور ژرف نگاہی کا نام دیاجائے۔