کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 27
مقلدین کا ہوتو قول وعمل اور فکر وسوچ کا اندازیکسر تبدیل ہوجائے گا، غور فرمائیے !
ادباً واحتراماً غیر مقلدین شیخ ابن باز کو ”والدنا“ کہہ دیں توان کی ماؤں کی پاکدامنی پر سوالیہ نشان قائم ہوجائے گا لیکن ایک مقلد اور اس کی منکوحہ مقلدہ کے مابین بعدا لمشرقین والمغربین پایاجائے، دونوں کے درمیان اجتماع نہ ہوا ہو اور عورت بچہ جنم دے دے تو وہ اسی مقلد کا بچہ ماناجائے گا اور عورت کی پاکدامنی پر ذرہ برابر آنچ نہیں آسکتی ۔ ا س کےلیے ایسے دورازکاراحتمالات بیان کئے جاتےہیں جن کو سن کر شیاطین جن وانس بھی شرماجائیں۔ [1]رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ”باپ“ ہونے کی قرآن کریم میں نفی کی گئی ہے، ارشاد باری ہے :﴿ مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَـٰكِن رَّسُولَ اللَّـهِ﴾ [2]
ترجمہ : محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں ہیں البتہ وہ اللہ تعالیٰ کے پیغمبر ہیں۔
اس کو بنیاد بناکر یہ کہاگیا کہ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو”والدنا“ نہیں کہاجاسکتا توشیخ ابن باز کیونکر کسی کے ”والدنا“ بن سکتے ہیں۔ قیاس ہوتو ایسا! رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مثال نظر گئی۔ ا س کی چنداں ضرورت نہیں محسوس کی گئی کہ معلوم کیاجائے کہ کس پس منظر میں یہ بات کہی گئی ہے اور اس نفی کا کیامعنی ومفہوم ہے ؟ کیادونوں صورتوں میں مشابہت
[1] تاج بہشتی زیور (۴/۴۳) (لڑکے کےحلالی ہونے کا بیان ) میں مذکور ہے :
”مسئلہ نمبر۱۰ میاں پردیس میں ہے اور دمت ہوگئی، برسیں گزرگئیں کہ گھر نہیں آیا اوریہاں لڑکا پیدا ہوگیا، (اور شوہر ا س کو اپنا ہی بتاتاہے) تب بھی وہ ازروئے قانون شرح حرامی نہیں اسی شوہر کا ہے، البتہ اگر شوہر خبر پاکر انکارکردے گا تولعان کاحکم ہوگا“۔
جب مذکورہ مسئلہ پر مختلف جہات سے اعتراضات کئے گئے توضمیمہ ثانیہ مسماۃ تصحیح الاغلاط (۴/۷۱) میں مزید توضیح کی گئی ہے ا ور توضیح میں جن امکانات کااظہار کیاگیاہے وہ حددرجہ مضحکہ خیز ہیں ا، ن امکانات میں بذریعہ کسی عمل مثل تسخیر جن وغیرہ کے یابذریعہ کرامت کسی بزرگکے وہ اپنی کے پاس پہنچ گیاہو، یااپنی بیوی کواپنے پاس بلالیا ہواور کسی کواس کی خبر نہ ہوئی ہو۔ ۔ ۔ ؟
[2] سورۃ الاحزاب آیت ۴۰