کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 269
”اے اللہ کے بندو ! اللہ تعالیٰ نے تمہیں اپنی کتاب کاجوکچھ علم عطا کیا ہے اس پر اللہ تعالیٰ کا شکرا دا کرو، ا ور جس علم کو تم سے پوشیدہ رکھاہے اسے جاننے والوں کے حوالہ کردو، ا ور اس کے جاننے کا تکلف نہ کرو، اس لیے اللہ تعالیٰ نےا پنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوحکم دیاہے :
”قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ“[1]
ترجمہ: کہہ دیجے کہ میں تم سے اس پر کوئی بدلہ طلب نہیں کرتا، اور نہ میں تکلف کرنے والوں میں سے ہوں“۔ [2]
حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے منبر پرا علان کرتے ہوئے فرمایا:
” میں اللہ کا واسطہ دے کر ہرا س شخص پر عرصۂ حیات تنگ کردوں گا جس نے کسی ایسی چیز کےمتعلق سوال کیا جو ابھی واقع نہیں ہوئی ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر واقع ہونے والی چیز کو بیان کردیاہے “۔ [3]
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتےہیں :
”ایسی چیزوں کے متعلق سوال نہ کروجوابھی واقع نہیں ہوئی ہیں، ا س لیے کہ میں نے حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کو ایسے شخص پر لعنت بھیجتے ہوئے سنا ہے جس نے ایسے امور کےمتعلق سوال کیا جوابھی واقع نہیں ہوئے ہیں “۔ [4]
اسی طرح متعددصحابہ کرام زید بن ثابت، ابی بن کعب، عمار بن یاسر (رضی اللہ عنہم اجمعین) وغیرہ کےمتعلق آتاہے کہ جب ان سے کسی چیز کےمتعلق سوال کیاجاتا تو پوچھتے کہ کیاایساواقع ہواہے ؟ اگر کہاجائے کہ ہاں، ایسا واقع ہواہے، توجواب دیتے، ورنہ جواب
[1] سورہ ص آیت ۸۶
[2] جامع بیان العلم وفضلہ (۲/۱۳۶) طبع مطبعۃ منیریہ قاہرہ۔
[3] (ایضاً(۲/۱۴۱)
[4] (الفقیه والمنفقه(۲/۷)، ایضاً جامع بیان العلم وفضلہ (۲/۱۴۳، ۱۳۹)