کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 265
اس معنی ومفہوم کی دیگر احادیث بھی ہیں، لیکن وہ درجہ تو اتر کونہیں پہنچتی ہیں۔
توکیا فقیہان سید واڑہ اپنےا ندرا س کی جرأت پاتے ہیں کہ مذکورہ اصولی ضابطہ کی روشنی میں کسی عورت اور ا س کی پھوپھو یا اس کی خالہ سے ایک ساتھ شادی کرنے کی اجازت دے دیں گے ؟ یا خود اپنےا صول کو زندہ وثابت رکھنے کے لیے اس طرح کی شادی کرلیں گے ؟ اگر یہ قاعدہ یہاں ٹوٹ سکتا ہے تو پھر کیاوجہ ہے کہ سورہ فاتحہ کی قرأت کو لازم قرار دینے میں نہیں ٹوٹ سکتا، جبکہ یہ خود ساختہ قاعدہ ہے، کتاب وسنت میں اس کی کوئی دلیل بھی نہیں ہے۔
اسی طرح قرآن کریم کے اندر جانوروں اور پرندوں کوجن کا کھاناحرام ہے [1]شمار کرتے وقت (ذی مخلب) پنجوں سے نوچ کر کھانے والے پرندوں اور (ذی ناب) کچلی دانتوں سے نوچ کرکھانے والے جانوروں کونہیں ذکر کیاگیا ہے، بلکہ اس کی حرمت ایسی حدیث سے ثابت ہے جو خبر واحد ہے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ذی ناب، درندوں اور ذی مخلب پرندوں کو کھانے سے منع کیاہے، حدیث کتے الفاظ مندرجہ ذیل ہیں :
”نَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ كُلِّ ذِي نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ، وَعَنْ كُلِّ ذِي مِخْلَبٍ مِنَ الطَّيْرِ “[2]
یہاں بھی ہم بصد احترام فقیہان سید واڑہ سے پوچھنا چاہیں گے کہ کیا چیل وگدھ جیسے پرندوں اور کتے وبھیڑیے جیسے جانوروں کو اپنے دسترخوان کی زینت بناکر مذکورہ خود ساختہ اصولی ضابطہ کو برقرار رکھنے کی ہمت کرسکتے ہیں ؟
مناسبت کے پیش نظر عرض کرنا چاہیں گے کہ ان حضرات کو سورہ فاتحہ کی قرأت کے بارے میں حکم قرآن کا اتنا پاس ولحاظ ہے کہ واضح حدیث رسول کے ہوتے ہوئے بھی ورہ
[1] ملاحظہ ہوسورۃ المائدہ آیت نمبر۲
[2] ملاحظہ ہو:صحیح مسلم، ا لصید (۳/۱۵۳۴) وسنن أبی داؤد، الأطمعۃ (۴/۱۵۹، حدیث نمبر ۳۸۰۳) ذی ناب کی روایت امام بخاری کے یہاں بھی موجود ہے۔