کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 264
متفقہ اصول وضابطہ ہے کہ اگر کسی مطلق حکم کی کسی دوسرے نص سے تنقید ہوتی ہے تواس کو مقید کرنا ضروری ہے۔
ان لوگوں کے یہاں ایک ضابطہ یہ بھی ہے کہ قرآن کریم سے ثابت کسی حکم پرا یسی کسی حدیث سے کسی قسم کی زیادتی جائز نہیں ہے جوتواتر کو نہ پہنچتی ہو۔ ایسی حدیث کو خبر واحد کانام دیاجاتاہے۔ چنانچہ سورہ فاتحہ کی قرأت س کےفرض نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی بتلائی جاتی ہے کہ قرآن کریم میں صرف قرأت کاحکم ہے۔ ا ور جس حدیث میں سورہ فاتحہ کی قرأت کو لازم قرار دیاگیاہے، وہ خبر واحد ہے، تواتر کے درجہ کو نہیں پہنچتی ہے، لہٰذا اس سے قرأت قرآن کے مطلق حکم پر سورہ فاتحہ کی تحدید کرکے زیادتی نہیں کی جاسکتی۔ چنانچہ ہدایہ ہی میں مذکور ہے :
”ولنا قوله تعالیٰ :’ فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ“والزیادة علیه بخبر الواحد لاتجوز“
”یعنی ہماری دلیل اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے ( فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ) ہے
اورا س حکم پر خبر واحد کے ذریعہ زیادتی جائز نہیں ہے۔ “
اگر اس ضابطہ کی صحت کو تسلیم کرلیاجائے تو اس سے بہت سی ایسی چیزیں جومتفقہ طور پرحرام ہیں ان کی حلت کوتسلیم کرنا لازم ہوگا۔ قرآن کریم کے اندر (محرمات ) ایسی عورتوں کوشمار کرتے وقت جن سے نکاح حرام ہے عورت اور اس کی خالہ یا اس کی پھوپھی کے درمیان جمع کرنا مذکور نہیں ہے۔ [1]اس کی حرمت ایک ایسی حدیثس سے ثابت ہے جو تواتر کونہیں پہنچتی ہے۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے :
” لَا يُجْمَعُ بَيْنَ الْمَرْأَةِ وَعَمَّتِهَا وَلَا بَيْنَ الْمَرْأَةِ وَخَالَتِهَا“ [2]
”کسی عورت اور اس کی پھوپھی، اسی طرح کسی عورت اور اس کی خالہ کے مابین جمع نہیں کیاجاسکتا“۔
[1] ملاحظہ ہوسورۃا لنساء کی آیت ۲۳
[2] ملاحظہ ہو: صحیح البخاری، النکاح (۹/۱۶۰حدیث نمبر۵۱۰۹) وصحیح مسلم، کتاب النکاح (۲/۱۰۲۸ حدیث نمبر ۱۴۰۸)