کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 263
نے فرمایاتھا:
” ارْجِعْ فَصَلِّ، فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ“
یعنی :لوٹ جاؤ، جاکر نماز ادا کرو، کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی ہے۔
ایک ہی حدیث کے اندر و رارد دوحکموں میں سے ایک حکم کو قبول کرکے دوسرے حکم کو نظر اندازکردیاگیا، چنانچہ فقہ کی کتابوں میں مذکور ہے :
اگر تعدیل ارکان کے بغیر بھی کوئی نماز پڑھتا ہے تو اس کی نماز ہوجائے گی، کیونکہ تعدیل ارکان کاحکم فرض نہیں ہے۔ ہدایہ میں ہے :
”آما الاستواء قائمائلیس بفرض، وکذا الجلسة بین السجدتین، والطمأنینة فی الرکوع والسجود، وھذا عندأبی حنیفة ومحمد رحمھمااللہ تعالی۔ ۔ ولھما أن الرکوع ھو الانحناء، وھوالسجود ھو الانخفاض لغة فتتعلق الرکنیة بالأدنی فیھما۔ ۔ ۔ ۔ “[1]
یعنی: ”(رکوع سے اٹھتے وقت) بالکل سیدھے کھڑے ہونا امام ابوحنیفہ وامام محمد رحمہما اللہ کے نزدیک فرض نہیں ہے، اسی طرح دونوں سجدوں کے مابین بیٹھنا بیٹھنا اور رکوع وسجود میں اطمینان کرنا (فرض نہیں ہے )۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان کی دلیل یہ ہےکہ لغت میں رکوع محض جھکنے اور سجدہ محض زمین ٹیکنے کو کہتے ہیں، لہذا رکنیت ان دونوں میں کم سے کم ترعمل کے ذریعہ ادا ہوجائے گی “۔
اس طرح ایک ہی حدیث کے ساتھ دوہرا سلوک روارکھاگیا۔ چنانچہ ایک مسئلے میں مذہب سے موافقت کی ببناپر حدیث خودلیل بنالیاگیا، ا ور دوسرے مسئلےمیں مذہب سے موافقت کی بناء پر حدیث کو دلیل بنالیاگیا، اور دوسرے مسئلے میں محض مذہب سے مخالفت کی وجہ سے اسی حدیث کو نظر اندازکردیاگیا۔ حالانکہ جس مسئلے میں حدیث کو دلیل بنایاگیاہے واضح طور پر اس مسئلے ہرحدیث دلیل بھی نہیں ہے، صرف اتنی سی بات ہے کہ اس حدیث میں مطلق قرأت کا ذکر ہے، جبکہ دوسری احادیث کے ذریعہ اس اطلاق کومقید کرکے سورہ فاتحہ کی قرأت کو ضروری قراردیاگیا ہے۔ اصول فقہ کا یہ ایک
[1] ہدایہ (۱/۴۹ طبع مصر)