کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 262
بتلایا۔ [1] رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی حدیث میں اس شخص کو طریقہ نماز سکھلاتے ہوئے فرمایا: ثُمَّ اقْرَأْ مَا تَيَسَّرَ مَعَكَ مِنَ القُرْآنِ یعنی پھر قرآن کریم سے تمہیں جوکچھ میسر (یاد)ہواسے پڑھو “۔ آپ کے مذکورہ ارشاد مبارک سے استدلال کرتے ہوئے کہاگیا کہ : ”نماز میں سورہ فاتحہ کی قرأت متعینہ طور پر واجب نہیں ہے“۔ [2] حالانکہ اسی حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی شخص کو مبینہ طور پر تعدیل ارکان کابھی حکم دیاتھا، ا ور فرمایاتھا: ثُمَّ ارْكَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ رَاكِعًا، ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَعْدِلَ قَائِمًا، ثُمَّ اسْجُدْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا یعنی پھر رکوع میں جاؤ، یہاں تک کہ پورے اطمینان کے ساتھ رکوع کرو، پھر سراٹھاؤ یہاں تک کہ بالکل سیدھے کھڑے ہوجاؤ، پھر سجدے میں جاؤ، یہاں تک کہ پورے اطمینان کے ساتھ سجدہ کرو“۔ ساتھ ہی یہ بھی ملحوظ رہے کہ اس شخص کی غیر معمولی جلد بازی کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ سلم
[1] مکمل حدیث کےلیے ملاحظہ ہو: صحیح البخاری، کتاب الأذان (۲/۲۳۷حدیث نمبر ۷۵۷، کتاب الأیمان (۱۱/۵۴۹ حدیث نمبر ۶۶۶۷) وصحیح مسلم، کتاب الصلاۃ (۱/۲۹۷، حدیث نمبر ۳۹۷) [2] ہدایہ میں مذکور ہے :” فقراء ۃ الفاتحة لاتتبعین رکنا عندنا“۔ یعنی ہمارے یہاں سورہ فاتحہ کی قرأت کو متعینہ طور پر رکن کی حیثیت نہیں حاصل ہے۔ (۱/۴۸طبع مصر) یہاں ہم سید واڑہ اور ان کے ہم نواؤں سے بصد احترام پوچھنا چاہیں گےاگر کوئی اہلحدیث عالم یہ کہتا ہے کہ ”جماعت اہلحدیث تقلید شخصی کی اجازت نہیں دیتی“ تو آپ نے انہیں اللہ اور رسول کا خطاب عنایت کردیتے ہیں، آپ اپنے ان بزرگوں کوکون ساخطاب عنایت کریں گے، جومبینہ طور پر فرمارہے ہیں کہ ہمارے نزدیک سورہ فاتحہ کی قرأت کو رکن کی حیثیت نہیں حاصل ہے۔ کہیں ایسا تونہیں کہ آپ کی نظر میں ان بزرگوں کواللہ اور رسول کی کی جانب سےا تھارٹی لیٹر ملا ہو۔ لہٰذا اس کو اختیار حاصل ہے جس کو چاہیں رکن کی حیثیت دیں اور جس کوچاہیں رکن کی حیثیت نہ دیں۔