کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 26
مضاف الیہ کورکھ دیا گیاہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ”وَاسْأَلِ الْقَرْيَةَ الَّتِي كُنَّا فِيهَا وَالْعِيرَ الَّتِي أَقْبَلْنَا فِيهَا[1] جلالین میں آیت کی تفسیر کرتے ہوئے کہاگیاہے : أی أرسل أھلھافاسألھم (والعیر) أی أصحاب العیر۔ ۔ ۔ “[2] لہٰذا ”والدنا“ سے مراد”مقمام والدنا” یا ”بمنزلة والدنا“بھی ہوسکتاہے، جس سے تملق یا حسب ونسب میں ہیر پھیر نہیں بلکہ ادب وتکریم اور تعظیم واحترام مقصود ہے۔ اگر آپ کی نظر میں شیخ ابن باز قابل احترام شخصیت کے مالک نہیں ہیں تواس سے یہ نہیں لازم آتاکہ دوسرے لوگوں کے نزدیک بھی وہ قابل احترام نہیں ہیں۔ احترام وتملق کی حد کی تعیین آپ کے ہاتھ میں نہیں بلکہ عرف عام کے ہاتھ میں ہے۔ کسی کی بزرگی کومد نظر رکھتے ہوئے اسے دادا، چچا اور بھائی وغیرہ کہنا عام طور پر رائج ہے۔ کیا آپ کے محلّہ کے کم عمر اور چھوٹے اپنےسے بڑے اور بزرگ لوگوں کو دادا، ابا، چچا اور بھائی بہن نہیں کہتے؟ اسی طرح آپ کے خاندان کی عورتیں اپنے شوہروں کے والدین اور چچا وغیرہ کو ابا، اماں اور چچا کہہ کر نہیں پکارتی ہیں ؟ بالکل پکارتی ہیں اس کا کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ یہی سوال آپ وہاں دہرائیے، ا ور اپنے محلّہ کی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کے رشتہ کی نوعیت معلوم کرنے کی کوشش کیجیے، اور انجام بھی ملاحظہ کیجیے۔ لیکن ہمیں یقین ہے کہ آپ ایسا اپنے محلّہ کی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کے ساتھ نہیں کریں گے، کیونکہ یہاں مسئلہ غیر مقلدین کا نہیں ہے۔ ا ور وہاں غیر مقلدین کا تھااس لیے حیا کا دبیز لبادہ اوڑھ کرا س قسم کا سوال پیدا کرنےا ور بغض وحسد کی آگ میں جلنے والے دلوں کو سکون بہم پہنچانے میں کوئی عار نہیں محسوس ہوئی اور نہ ضمیر وایمان مانع ہوا۔ اگر یہی مسئلہ اپنی برادری ( مذہیین )
[1] سورہ یوسف آیت نمبر۸۲ [2] تفسیر جلالین (ص۱۹۷)