کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 259
علماء متاخرین سے نقل کرتے ہوئے کہاگیاہے کہ خواتین کا مساجد میں نماز باجماعت کے لیے جانا متروک ہوگیاہے۔ اتنی بڑی جرأت تقلید ہی کی دین اور مزعومہ مذہبیت کا ہی شاخسانہ ہے، ا ور اسی بنا پر کہنا پڑتا ہے کہ جس بات کو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اپنے طور پر کہاتھا اپنی رائےاجتہاد سے کہاتھا اس کو قابل اعتنا ہی نہیں بلکہ واجب القبول سمجھاگیا اور جس حدیث کو مرفوعاً روایت کیااسے قابل اعتنا نہیں سمجھا گیا۔
علامہ طیبی رحمہ اللہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث کی تشریح میں لکھتےہیں :
ایسے شخص پر مجھے تعجب ہے جواپنے آپ کو سنی کہلاتاہے جب اس کو سنت رسول پہنچتی ہےاور اس مئلے میں اس کی کوئی خاص رائے ہوتی ہے تو وہ سنت رسول پر اس کو ترجیح دیتاہے، ا یسے سنی اور بدعتی میں کیا فرق ہوگا، کیااس نے یہ حدیث نہیں سنی : تم میں سےکوئی شخص مومن ہوہی نہیں سکتا یہاں تک کہ اس کی خواہشات میرے لائے ہوئے احکام کی تابع نہ ہوں۔ ملاحظہ فرمائیں (حضرت ) ابن عمر ( رضی اللہ عنہما ) کوجوکبار صحابہ اور فقہاء صحابہ میں شمار کئے جاتے ہیں کس طرح اللہ اور اس کے رسول کے لیے ناراض ہوئے ہیں۔ اور ا صحاب بصیرت لوگوں کو عبرت کے لیے اس غلطی پر اپنے لخت جگر سے کس طرح ترک تعلق کرلیتے ہیں “۔ [1]
ج۔ حدیث رسول کے ساتھ اس قسم کے سوتیلے پن کی بیشمار مثالیں اور متعدد نمونے
[1] انی پت ۱۸/۹/۹۷ کے منعقدہ سیمینار اور اس میں ایک لائق اعتماد عالم کی اس تقریر کی جانب ( جس میں انہوں نے خواتین کے مساجد جانے کی وکالت کرنے والے مسلم لیڈروں اور کٹھ ملاؤں سے مطالبہ کیا ہے کہ اپنی بہو بیٹیوں کوچند روز کے لیے باضابطہ مساجد میں بھیج کر تجربہ کرلیں کہ علماء کیوں انہیں مساجد میں جانے سے روکتے ہیں ) توجہ مبذول کراتے ہوئے ان لوگوں سے پوچھنا چاہیں گے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اور ان کی اس مخالفت پر آپ لوگ کیاموقف اختیار کریں گے، کیا ان کی ا س مخالفت کے باوجود آپ کا دعوی اجماع باقی رہ جاتا ہے، یا ان کو اس اجماع کا علم نہیں تھا؟؟ اور کیا ان کو بھی حضرات تجربہ کی دعوت دیں گے ؟ ویسے ان حضرات سے کوئی بعید نہیں ہے کسی کو کچھ بھی کہہ سکتے ہیں پھر بھی اب کے بادب اور باتمیز ہونے میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
مرعاۃ المفاتیح (۳/۵۳۱)