کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 258
عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما کا یہ اثر موقوف ہونے کے باوجود اپنے من موافق ہونے کی وجہ سے واجب القبول ہوگیا، جبکہ انہیں کے واسطے سے مروی متعدد صحیح مرفوع احادیث کومخالف مذہب ہونے کی وجہ سے ناقابل قبول گردانا گیا۔ اس کی واضح ترین مثال قیام اللیل کی تعداد رکعات کے سلسلے میں آپ رضی اللہ عنہما سے مروی وہ حدیث ہے جس میں آپ نے پوچھے جانے پر نہایت واضح الفاظ میں فرمایاتھا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان اور غیررمضان میں گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھی ہے۔ [1] اسی بناء پر مجدد حنفیت علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ اس حقیقت کا اعتراف کئے بغیر نہ رہ سکے کہ: ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تراویح کو آٹھ رکعات تسلیم کئے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے اور نہ کسی ہروایت سے یہ ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں تراویح اور تہجد کے نام سے الگ الگ دونمازیں ادا کرتے تھے “۔ [2] اور پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اثر میں خواتین کو مساجد سے روک دینے کا صرف اندیشہ ظاہر کیاگیاہے، نہ کہ روک دینے کا فتوی دیاگیاہے۔ [3]
[1] ملاحظہ ہو: صحیح البخاری :صلاۃ التراویح (۴/۲۵۲حدیث نمبر ۲۰۱۳) [2] العرف الشذی (ص۳۲۹) [3] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :”خواتین کو(مساجد سے) علی الاطلاق منع کرنے پر بعض فقہاء کرام نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے قول کو اپنا مستدل بنایاہے جومحل نظر ہے “۔ اور اس کے محل نظر ہونے کی متعدد وجوہات بیان کی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے جوبیان کی گئی ہے، چنانچہ فرماتے ہیں : اس قسم کے اندیشہ پر کسی حکم میں تبدیلی نہیں کی جاسکتی، کیونکہ انہوں نے اس کو ایک ایسی شرط کے ساتھ اپنے خیال وگمان کی بنیاد پر معلق کیاہے جوپائی نہیں گئی، چنانچہ فرماتے ہیں اگر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دیکھتے تو منع کردیتے، لہٰذا اس پر یہی کہاجائے گا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ دیکھا اور نہ منع کیا، لہذٰا حکم برقرا ررہے گا یہاں تک کہ خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی صراحۃ ً منع نہیں کیا، اگر چہ ان کے کلام سے یہی معلوم ہورہاہے کہ وہ ممانعت ہی کی قائل تھیں۔ نیز فرماتے ہیں کہ :خواتین نے جن نئی چیزوں کو پیدا کرلیاتھا، اگر ان کی وجہ سےخواتین کومساجد سے روکنا لازم تھاتو بازار وغیرہ جیسی جگہوں سے ان کو روکنا زیادہ ضروری تھا، زیادہ مناسب بات یہ ہے کہ جن امور سے فتنہ وفساد کا خوف ہو، ان سے اجتناب کیاجائے جیساکہ آپ نے زیب وزینت اورخوشبو سے منع کرکے اس کی جانب اشارہ کیاہے، فتح الباری (۲/۳۵۰)