کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 257
الْمُتَأَخِّرِينَ““[1]
مذکورہ قول کتب فقہ کی صرف زیب وزینت ہی نہیں بلکہ اس پر بڑے شدومد کےساتھ عمل بھی کیاجارہاہے، ا ور بڑی جرأت اور دیدہ دلیری کے ساتھ اس کی وکالت بھی کی جارہی ہے، ہر قسم کے وسائل کوروا رکھ کر عورتوں کے مسجد جانے کوباعث فتنہ قرار دیاجارہاہے، خواہ کسی اور جگہ جانے میں فتنہ کا حقیقی معنوں میں خوف ہو یانہ ہو اس کےخلاف آواز اٹھانے کی ضرورت نہیں محسوس کی جاتی، بلکہ تبلیغ کے نام پر منعقد کئے جانے والے اجتماعات میں شرکت کوخواہ دوردراز کا سفر ہی کیوں نہ کرنا پڑے باعث اجروثواب اور خیر وبرکت سمجھا جاتاہے، مگر محلہ کی مسجدوں میں شرکت کو باعث فتنہ قرار دے کر اس کی حرمت پرا جماع نقل کیاجارہاہے۔ گویا علماء متاخرین کوصحیح ترین احادیث رسول سے ثابت شدہ احکام میں بذریعہ دعوئ اجماع تبدیلی کا حق حاصل ہے۔ اولاً اجماع کا دعوی ہی محل نظر ہے، بالفرض دعوئ اجماع کو تسلیم بھی کرلیاگیا توکیا کسی مسئلہ میں کتاب وسنت سے ثابت کسی حکم کو بذریعہ دعوئ اجماع تبدیل کیاجاسکتاہے ؟ اگر ایساممکن ہے توپھر مصادر شریعت کی ترتیب جس میں کتاب وسنت کومقدم رکھاگیا ہے اس ترتیب کوتبدیل کرکے اجماع کوسرفہرست رکھنا زیادہ مناسب ہوگا؟
یہاں یہ بھی واضح کردینا مناسب ہوگا کہ بعض صحابہ یاصحابیات رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اندیشۂ فتنہ کوبھی بنیادبنایاجاتاہے۔ ا س سلسلے میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما کے ایک اثر سے بڑے زور وشور سے استدلال کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جس میں آپ نے اپنے زمانہ کی خواتین اور ان کی زیب وزینت خودیکھ کر یہ اندیشہ ظاہر کیاتھا کہ اگر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بقیدحیات ہوتے اورا ن عورتوں خودیکھتے توانہیں مساجد آنے سے روک دیتے جس طرح بنواسرائیل کی عورتوں کوروک دیاگیاتھا [2]، حضرت
[1] ملاحظہ ہو: شرح العنایۃ علی الہدایہ (۱/۲۲۶، ۲۲۵علی ھامش فتح القدیر ) منقول از بدعۃ التعصب المذھبی (ص ۱۴۷)، فتح القدیر میں بھی اسی قسم کی بات کہی گئی ہے۔ (۱/۱۵۳انول کشور)
[2] مکمل حدیث کےلیے ملاحظہ ہو : صحیح البخاری، الأذان (۲/۳۴۹ حدیث نمبر ۸۶۹) وصحیح مسلم، کتاب الصلاۃ (۱/۳۲۹ حدیث نمبر ۴۴۵)