کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 249
شریف کی غلطی پر جب خیال آیا تو اس بات کا ارادہ ہواکہ ا س خیال کو دل سے دور کیاجائے اس واسطے کہ پھر کوئی ایسی غلطی نہ ہوجائے، بایں خیال بندہ بیٹھ گیا اور پھر دوسری کروٹ لیٹ کر کلمہ شریف کی غلطی کے تدارک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پردرود شریف پڑھتا ہوں، لیکن پھر بھی یہ کہتا ہوں ” اللھم صَل علی سیدنا ونبینا مولانا اشرف علی حالانکہ اب بیدار ہوں خواب نہیں، لیکن بے اختیار ہوں، مجبو ر ہوں، زبان اپنے قابو میں نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “ مولانا اشرف علی تھانوی بجائے اس کے کہ اپنے اس مرید کو تنبیہ فرماتے اور اسے شیطانی وسوسہ کہہ کردل سے نکال دینے اور اللہ تعالیٰ سے توبہ کرنے کی تلقین کرتے۔ یہ تو ہم جیسے ظاہر بین لوگوں کی نظر میں ایسا ہونا چاہیے لیکن مولانا کی باطن بین نظر نے اس کے باطن میں کیامحسوس کیااس کو آپ ملاحظہ فرمائیں۔ ۔ ۔ ۔ فرماتے ہیں :”اس واقعہ میں تسلی تھی کہ جس کی طرف تم رجوع کرتےہو وہ بعونہ تعالیٰ متبع سنت ہے “۔ [1] اس کےبعد توخدائی قدرت کا دعوی ہی باقی رہ جاتاہے سووہ بھی ملاحظہ فرمالیں: حضرت مولاناقاسم نانوتوی صاحب سے شیعوں نے ایک جنازے پر نماز پڑھانے کامطالبہ کیا، نوجوان لڑکے کا فرضی جنازہ بنایاگیا، پروگرام یہ تھا کہ جب حضرت دو تکبیریں کہہ لیں توصاحب جنازہ ایک دم اٹھ کھڑا ہو، ا س پر حضرت کے ساتھ استہزاء وتمسخر کیاجائے، شیعوں کے اصرار پر مولانا نے منظوری دے دی، اور نماز کے لیے آگے بڑھے اور نماز شروع کردی، دو تکبیریں کہنے پر جب طے شدہ پروگرام کے مطابق جنازہ کواٹھ کھڑے ہونے کی سسکاری، مگر وہ نہ اٹھا، حضرت تکبیرات اربعہ پوری کرکے غصہ کے لہجے میں فرمایاکہ ”اب یہ قیامت کی صبح سے پہلے نہیں اٹھ سکتا“ دیکھا تھا تو وہ مردہ تھا۔ [2]
[1] ملاحظہ ہو: دیوبندی عقائد کا تحقیقی جائزہ ( ص۷۱، ۷۰)مذکورہ واقعہ رسالۃ الامداد(ص۳۵) سے منقول ہے۔ [2] سوانح قاسمی (۲/۷۱حاشیہ) چونکہ قصہ طویل ہے اس لیے اختصار سے پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ حتی الامکان اپنے الفاظ استعمال کرنے سے گریز کیاگیاہے۔