کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 248
کےذریعہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ تواجازت طلب کی اور نہ ہی امداد۔ لیکن تیرہویں چودہویں صدی کا ایک عام آدمی چاہے وہ اپنے متبعین کی نظر میں کمال کے جس مقام پر بھی فائز ہو صحابہ کرام کے مقابلے میں ایک عام آدمی کی حیثیت سےزیادہ نہیں ہے، وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوکئی سالوں تک اپنے قلب میں جمائے رکھتے ہیں کوئی چھوٹ ایابڑا کام رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لئے بغیر انجام دیتے۔ گویاصحابہ کرام سے مقام ومرتبہ میں بڑھے ہوئے ہیں۔
انہی بزرگ کو کئی مرتبہ بحیثیت تبلیغ یہ الفاظ فرماتےہوئے سناگیا:” سن لوحق وہی ہے، جورشید احمد کی زبان سے نکلتا ہےا ور بقسم کہتا ہوں کہ میں کچھ نہیں ہوں، مگر اس زمانہ میں ہدایت ونجات موقوف ہے میرے اتباع پر۔ “[1]
صحابہ کرام کو اس قسم کی بات اپنی زبان سے نکالنے کی جرأت نہیں ہوئی، بلکہ مسند خلافت پر بیٹھنے کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جو پہلا خطبہ دیاتھااس میں ایک بات یہ بھی فرمائی تھی :”اگر میرے اندر کجی آجائے تو تم مجھے سیدھا کرنا۔ ۔ “ [2]لیکن تیرہویں چودہویں صدی کے ایک آدمی کتنی جرأت کے ساتھ ایک مرتبہ نہیں بار ہا ایک ایسی بات کا اعلان کررہے ہیں جو لائق وزیبا ہے صرف اور صرف رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو۔ آپ کی ذات بابرکات کے علاوہ کسی کی مجال نہیں کہ ا سطرح کی بات کہے، بلکہ اس طرح کا تصور اپنے ذہن میں لائے، چہ جائیکہ اپنی زبان سے نکالے ۔ اس کے بعد یہی باقی رہ جاتاہے کہ اپنے نام کاکلمہ بھی پڑھوالیا۔ چنانچہ مولانا اشرف علی تھانوی کا ایک مرید لکھتا ہے :
”میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ کلمہ شریف ”لااله الااللہ محمد رسول اللہ” پڑھتا ہوں، لیکن ”محمد رسول اللہ “کی جگہ حضور ”اشرف علی “کانام لیتا ہوں “خواب میں اور خواب سے بیدار ہوکر اپنی طویل کیفیت بیان کرتےہوئے لکھتا ہے :” حالت بیداری میں کلمہ
[1] تذکرۃ اکرشید (ص ۲/۱۷)
[2] ملاحظہ ہو : تاریخ الخلفاء (ص ۸۳)مولفہ جلال الدین سیوطی۔