کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 245
قصہ عرض کیا، آپ نے فرمایا : بھائی مجھے تو خبر بھی نہیں “۔ [1] طوالت سے گریز کرتے ہوئے مکمل واقعہ نقل نہیں کیاگیا۔ واقعہ کی تضاد بیانی اور اس کےا ضطراب سے قطع نظر کرتے ہوئے کہ اسے تعدد پر بھی محمول کیاجاسکتاہے، ہم قارئین کرام کی توجہ اس کے محتویات اور مشتملات کی جانب مبذول کرانا چاہتے ہیں اور ان خوش عقیدہ لوگوں کی خوش عقیدگی کوبیان کرنا چاہتے ہیں جنہیں اپنے عقیدہ کی پختگی اور سلامتی کابڑا زعم ہے۔ کیایہی عقیدگی اور عقیدہ کی سلامتی اور پختگی ہے جس میں عبد ومعبود کے درمیان فرق کو باقی نہیں رہنے دیاگیا۔ ہوسکتا ہے مولوی ابوبکر اور ان کی ٹیم ظاہر وباطن کا سہارا لےکر اور ا سے ہمار ظاہری بینی اور کج فہمی پر محمول کرتے ہوئے اس طرح کے واقعات کومبنی برحق وصداقت کا اعلان کریں لیکن معاملہ اسی پر موقوف نہیں ہے بلکہ اس کے علاوہ اور بھی واقعات کااعلان کریں لیکن معاملہ اسی پرموقوف نہیں ہے بلکہ اس کے علاوہ اور بھی واقعات ہیں جن سے ان کی خوش عقیدگی اور ان کے عقیدہ کی پختگی کا بخابی اندازہ ہوتاہے ۔ ”رحمۃ للعالمین“صفت خاصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نہیں ہے اشرف السوانح میں بڑے ہی جلی حروف میں مذکور ہے : ”حضرت مولانا گنگوہی قدس سرہ العزیز نے شیخ العرب والعجم اعلی حضرت حاجی صاحب قدس سرہ العزیز کو بعد وفات حضرت حاجی صاحب ممدوح یاد فرمایا تھا، یعنی بار بار فرماتےتھے : ہائے رحمۃ للعالین “ [2] پتہ نہیں بزرگان سید واڑہ اسے کیا نام دیں گے ؟ ہم مسکینوں کو اتنا معلوم ہے کہ ان کےبڑوں کے یہاں ا س میں کوئی قباحت نہیں ہے، اور یہ لوگ اپنے بڑوں کی مخالفت کرکےعذاب الٰہی مول لینا نہیں چاہیں گے۔ چنانچہ ایک سوال کے جواب میں ” کہ کیا لفاظ رحمۃ للعالمین مخصوص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہے یا ہرشخص کو کہہ سکتے ہیں “؟ حضرت شیخ الہند
[1] پوراقصہ ملاحظہ ہو: حکایات اولیاء ( اصلی اور قدیم نام :ارواح ثلاثہ ) (ص ۱۹۲۔ ۱۹۴) [2] اشرف السوانح (۳/۱۵۳، ۱۵۲)