کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 244
کرغرق ہوجائے یا دوبارہ ٹکرا کر پاش پاش ہوجائے، ا نہوں نے جب دیکھا کہ اب مرنے کےسواچارہ نہیں، اسی مایوسانہ حالت میں گھبرا کر اپنے پیر روشن ضمیر کی طرف خیال کیا۔ [1]اور عرض کیا کہ ”اس وقت سےز یادہ کون سا وقت امداد کا وہوگا“ اللہ تعالیٰ سمیع وبصیر کارساز مطلق ہے، اسی وقت ان کا آگبوٹ غرق سے نکل گیا اور تمام لوگوں کو نجات ملی، ادھر تو یہ قصہ پیش آیا، ا دھر اگلے روز مخدوم اپنےخادم سے بولے ذرا میری کمر تودباؤ، نہایت درد کرتی ہے، خادم نے کمر دباتے پیراہن مبارک جواٹھایا تو دیکھا کمر چھلی ہوئی ہے، ا ور اکثر جگہ سے کھال اترگئی ہے، پوچھا حضرت یہ کیابات ہے کمر کیوں چھلی ہوئی ہے، فرمایا:کچھ نہیں، پھر پوچھا: آپ خاموش رہے، تیسری مرتبہ پھر دریافت کیا حضرت یہ توکہیں رگڑ لگی ہے، ا ور آپ تو کہیں تشریف بھی نہیں لےگئے، فرمایا : ایک آگبوٹ ڈوبا جارہاتھا، ا س میں تمہار دینی اورسلسلے کا بھائی تھا، ا س کی گریہ وزاری نے مجھے بے چین کردیا، آگبوٹ کوکمر کا سہارا دے کر اوپر کواٹھایا، جب آگے چلا، ا ور بند گان خداکونجات ملی۔ اسی سے چھل گئی ہوگی، ا ورا سی وجہ سے درد ہے مگر اس کا ذکر نہ کرنا۔ “[2]
واقعہ کی ایک تیسری بالکل جداگانہ روایت ہے جو ” ارواح ثلاثہ“ اور نئے نام ”حکایات اولیاء “ میں مذکور ہے،، ا س میں جہاز کے سوار بھی کوئی دوسرے فرد ہیں، اخیر میں بیان کرتے ہیں :”طواف سے فارغ ہوکر حاجی صاحب سے ملا، اور کملی پیش کی اور جہاز کا
[1] کفار مکہ کے بارے میں قرآن کا ارشاد ہے:
”وَإِذَا غَشِيَهُم مَّوْجٌ كَالظُّلَلِ دَعَوُا اللَّـهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ“ (لقمان ۳۲)
”وَإِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِي الْبَحْرِ ضَلَّ مَن تَدْعُونَ إِلَّا إِيَّاهُ ۖ فَلَمَّا نَجَّاكُمْ إِلَى الْبَرِّ أَعْرَضْتُمْ ۚ وَكَانَ الْإِنسَانُ كَفُورًا“۔ ( بنی اسرائیل ۶۷)
اسی طرح کی متعددآیات قرآن کریم میں وارد ہوئی ہیں، جن کا مفہوم یہ ہے کہ مشرکین مکہ جب سمندری سفر کرتے اور انہیں سمندر میں کسی طوفان کا سامنا ہوتاتواپنے سارے معبود ان باطلہ کوفراموش کرکے صرف اللہ تعالیٰ کویاد کرتے تھے، ا نخوش عقیدہ بزرگ کو اس مصیبت میں اللہ تعالیٰ کا خیال نہ آکر پیروروشن ضمیر کاخیال آتاہے، ا ور اس سے امداد کے طالب ہوتے ہیں، اب آپ ہی اس پر کچھ فرمائیں ہم عرض کریں گے تو شکایت ہوگی۔
[2] ملاحظہ ہو: دیوبندی عقائد کا تحقیقی جائزہ (ص۱۵، ۱۴) والدیوبندیۃ (ص۷۰) دونوں میں کرامات امدادیہ کے حوالے سے واقعہ مذکور ہے۔