کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 243
وقت آگیا ہے، لہٰذا اللہ تعالیٰ سے دعاکی جائے۔ میں مراقبہ میں بیٹھ گیا، ا ور مجھ پر ایک خاص کیفیت طاری ہوگئی، ا ور میں نے دیکھا کہ آگبوٹ کےا یک بازو کوحافظ ضامن علی اور دوسرے بازو کو حاجی صاحب مکی کندھا دئیے ہوئے ہیں، کندھا دے کر آگبوٹ کو سطح سمندر پر برابر کردیا، جس سے وہ صحیح سلامت رواں دواں ہوگیا، اور لوگوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ میں نےا س واقعہ کو وقت اور دن، مہینہ اور تاریخ کے ساتھ اپنی ڈائری میں قلم بندکرلیا۔ جب سفر سے واپسی ہوئی اور تھانہ پہنچا، ا ور ڈائری میں نوٹ کردہ واقعہ پر نظر پڑی تو بعض لوگوں سے دریافت کیا۔ [1]
”ایک طالب علم قدرت علی ساکن ایندری ملک پنجاب مریدوخادم حاجی صاحب کی خدمت میں حاضر تھا، ا س نے بیان کیا کہ بیشک فلاں وقت میں حاضر تھا، حاجی صاحب حجرے سے باہر تشریف لائے، ا ور اپنی لنگی بھیگی ہوئی مجھ کو دی، اور فرمایاا س کوکنویں کے پانی سے دھوکر صاف کرلو، اس لنگی کو جب سونگھا اس میں دریائے شور کی بو اور چکنا پن معلوم ہوا، اس کے بعد حضرت حافظ صاحب اپنے حجرے سے برآمد ہوئے اور اپنی لنگی دی، اس میں بھی اثر دیا کامعلوم ہوتاتھا۔ “[2]
دوسری روایت کچھ اس طرح ہے : مولانا اشرف علی تھانوی مولوی نظام الدین صاحب کیرانوی سے وہ مولوی عبداللہ براقی سے روایت کرتے ہیں کہ ایک نہایت معتبر شخص ولایتی بیان کرتے ہیں کہ میرے ایک دوست جوکہ بقیۃ السلف حجۃ الخلف قدوۃ السالکین زبدۃ العارفین شیخ الکل فی الکل حضرت مولانا حاجی امداداللہ صاحب چستی صابری تھانوی ثم المکی سلمہ اللہ تعالیٰ سے بیعت تھے۔ حج خانہ کعبہ تشریف لے جاتے تھے، بمبئی سے آگبوٹ میں سوار ہوئے، آگبوٹ نے چلتے چلتے ٹکر کھائی اور قریب تھاکہ چکر کھا
[1] یہاں تک واقعہ”الدیوبندیہ“ (ص ۷۱) کے عربی متن سے ماخوذ ہے، ا س کو ”الدیوبندیہ“ سے لینے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ کرامات امدادیہ ہمیں دستیاب نہیں ہے، دیوبندی عقائد کا تحقیقی جائزہ“ میں مکمل واقعہ مذکور نہیں ہے۔ اور ”دیوبندی عقائد کاتحقیقی جائزہ“ میں مکمل واقعہ مذکور نہیں ہے۔
[2] مأخوذ از”دیوبندی عقائد کا تحقیقی جائزہ“ مولفہ سید طالب الرحمٰن (ص ۱۴۔ ۱۵) واضح ہوکہ مذکورہ واقعہ کرامات امدادیہ (۱۴) کےحوالے سے اس کتاب میں منقول ہے