کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 242
اگر ایسی بات ہوسکتی ہے توا سکے مستحق سب سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ لیکن شخصیت پرستی کی یہ کرشمہ سازی ہے کہ ان لوگوں نے اپنے بزرگوں کومقام نوبت سے بھی بڑھادیا۔ تذکرۃ الرشید ہی میں ایک جہاز کا قصہ مذکور ہے جو طوفان کی نذر ہوگیا تھا، نجات کے تمام راستےمسدود ہوچکےتھے، ہلاکت کے آثار بالکل نمایاں تھے، مسافروں سمیت عملہ کے لوگوں بھی سراسیمگی طاری تھی، جہاں میں امام ربانی قدس سرہ بھی سوارتھے، انہوں نے لوگوں کی حیرانی وپریشانی کو دیکھ کر فرمایا : بھئی کوئی مرے گا توہے نہیں ! ہم تو کسی کے بلائے ہوئے جارہے ہیں، خود نہیں جارہے ہیں۔ “ تین دن کے بعد طوفان تھم گیا، اور جہاز اپنی رفتار پر چلنے لگا۔ اس کے بعد مولف تذکرۃ الرشید لکھتے ہیں : ”سناہے کہ طوفان کی سخت شدت کے وقت جس تھوڑی دیر بعد سکون کے آثار پیدا ہوئے حکیم ضیاء الدین صاحب یا کسی دوسرے شخص نے عالم رویا یاعالم واقعہ میں دیکھا تھا کہ متلاطم سمندر میں ایک جانب اعلی حضرت حاجی صاحب اور دوسری جانب حافظ ضامن صاحب جہاز کوکندھے پررکھے ہوئے آگے کو ڈھکیلتے اور موجوں کے تھپیڑوں سے اس کی حفاظت فرماتے جارہے ہیں اور کہتے ہیں : گھبراؤنہیں “ [1] یہ تو تذکرۃ الرشید کی روایت ہوئی، یہی واقعہ یا دوسرا واقعہ اسی سے ملتا جلتا ”کرامات امدادیہ”میں دو طرح سے مقنول ہے۔ چونکہ کرامات امدادیہ ہمیں دستیاب نہیں ہے، ا س لیے دونوں روایتوں کے نقل میں کتاب ” الدیوبندیۃ “ اور کتاب ” دیوبندی عقائد کا تحقیقی جائزہ “ پر اعتماد کیاگیاہے۔ مولانا اشرف علی تھانوی حافظ عبدالقادر تھانوی سےا ور وہ مولانا محمد قدس سرہ سے روایت کرتے ہیں، وہ بیان کرتے ہیں کہ حج کے ارادے سے ہم آگبوٹ پر سوار ہوئے، آگبوٹ طوفان کا شکار ہوگیا، طوفان کئی دن برقراررہا یہاں تک کہ آگبوٹ سخت خطرہ میں پڑگیا، اور ڈوبنے کے قریب تھا کہ کپتان نے بآواز بلند اعلان کیا : اب دعاء کا
[1] تذکرۃ الرشید (۱/۲۰۵، ۲۰۶)