کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 24
اس سے بھی زیادہ مکروہ اور فحش نمونہ مذکورہ کتاب کے صفحہ ۱۴۱حاشیہ نمبر۶ پرملاحظہ فرمائیے : وخرجت علیه من الزوایة المنفرجة طائفة باغیة کسبیه قنوجیة مجسمة مشبھة آکلة من أکساب أبضاع نسائھا محدثة ضراط البدع وفسائھامحترفة الوقیعة فی أئمة الأئمة ورؤسئھا“۔ دل مضبوط کرکےقارئین اس بلیغ اور ستھری زبان کا ترجمہ بھی ملاحظہ فرمالیں، اور اطمینان قلب کی خاطر کسی روشن دماغ قاسمی مقلد سے اس کی تصحیح فرمالیں : ”اس کےخلاف زاویہ منفرجہ سے ایک جماعت نکلی ہے جو( حق سے) باغی ہے( برائیاں ) کمانے والی، قنوجی [1] ہے ( اللہ تعالیٰ کےلیے) جسم ثابت کرتی ہے، (اس کو) مخلوق سے مشابہ قرار دیتی ہے، اپنی عورتوں کی شرمگاہوں کی کمائی کھاتی ہے [2]۔ بدعتوں کا پاونکالتی ہے، آواز کے ساتھ اور بغیر آواز کے بھی، امت کے ائمہ اور اکابر پر طعن کرنا اس کا پیشہ ہے “۔ [3] ماشاء اللہ کیا ٹکسالی زبان ہے۔ دشنام طرازی میں اس مہارت تامہ پر جتنی بھی داد دی جائے کم ہے۔ کیا اس شگفتہ زبان پر لکھنؤ کی بھٹیار ن کو تعجب اور رشک نہیں ہوگا؟ آئیے ذرا ایک تیسرا بالکل تازہ اور اچھوتا نمونہ بھی ملاحظہ فرمالیجیے اور مذبیین (مقلدین) کے ذہنی ارتقاء اور فکری بلندی پر عش عش کیجیے۔ عصر حاضر کے ایک قلم کار جواس وقت مختلف طریقوں سے اپنے فن کا مظاہرہ کررہے اور اپنی برادری سے خوب داد
[1] نواب صدیق حسن خاں بخاری قنوجی کی طرف منسوب کرکے پوری جماعت کو (قنوجیہ ) کہاگیاہے۔ [2] یہ تومحض بدزبانی، سراسر بہتان اور تہمت ہے، جس پر اللہ تعالیٰ ان کا حسیب ہوگا، خود تہمت لگانے والوں کا حال یہ ہے کہ پیسے دے کر اپنی بہن بیٹیوں کاحلالہ کراتے ہیں، یہ ایک ایسی حقیقت ہے جوآج بھی عملی طور پررائج ہے، بلکہ بعض اداروں میں مخصوص طور پر اس کےلیے آدمی متعین ہوتے ہیں، یہاں تک سننے میں آیاہے کہ ایک حنفی اکثریت والے شہر میں ایک صاحب نے اپنے مکان پر نمایاں بورڈ آویزاں کر رکھا تھا جس پریہ لکھ رکھاتھا”حلالہ کےخواہش مندحضرات ہم سے رجوع کریں ”واللہ أعلم بصحته “بلکہ رانا پسروری صاحب کی کتاب ”حلالہ کی شرعی حیثیت“ میں متعدد واقعی نمونے ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں۔ [3] ملاحظہ ہو: ”انتقاد صحیح بجواب ذیل رکعات تراویح “(ج ۱ص ۳۰۔ ۳۲)