کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 238
من وعن تسلیم کرنا ضروری ہے۔ یہ خصوصیت توصرف رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوہی حاصل ہے۔ آپ کے علاوہ امت کا کوئی فرد ایسا نہیں ہےجس کی جملہ باتیں واجب التسلیم یاواجب الاطاعت ہوں۔ اگر ایسا ہوتا تو ائمہ امت کی ان کے شاگرد ان رشید کبھی بھی مخالفت نہیں کرتے۔ لیکن امر واقع یہ ہے کہ ایک روایت کے مطابق ایک ثلث مسائل میں دوسری روایت کے مطابق دوثلث مسائل میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے شاگردوں نے آپ کی مخالفت کی ہے۔ ا ور ہم نے جویہ سلسلہ شروع کیاہے توبدرجہ مجبوری اور بادل نخواستہ لوگوں کی لن ترانیوں، ظلم وتعدی اور ان کی دل آزار باتوں سے دل برداشتہ ہوکر شروع کیاہے۔
بہرحال تقلید کی کرشمہ سازی رہی ہے کہ ا س نے نہ صرف امام مذہب اور مذہب کی تعظیم وتقدیس میں اہل تقلید کو انتہا درجہ کے غلو ومبالغہ آرائی اور رنگ آمیز ی میں مبتلا کیاجس سے شریعت میں مبینہ طور پرروکا اور منع کیاگیاہے، بلکہ علماء مذہب کی بھی غیر معمولی تعظیم وتقدیس میں مبتلا کردیا جس کی وجہ سے وہ شخصیت پرستی کا شکار ہوکر رہ گئے۔ ا ور ایسی ویسی شخصیت پرستی نہیں بلکہ ایسی شخصیت پرستی کہ اپنے علماء مذہب کو شریعت سازی کے مقام پر بٹھایا کہ ان کی کہی ہوئی باتیں حرف اخیر کی حیثیت رکھتی ہیں، ان پر کسی قسم کا چوں چراں عذاب الٰہی کا باعث بن سکتاہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کسی عالم نے باجماعت نماز ادا کرنےکےلیے خواتین کے مسجد نہ جانے پر علماء متأخرین کا اجماع نقل کردیا تواس کو قطعی الثبوت اور قطعی الدلالۃ حجت کی حیثیت حاصل ہوگئی ۔ ا س کے مقابلے میں خواتین کے مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنے کےتعلق سے وارد تمام صحیح احادیث کو پس پشت ڈال دیاگیا۔ اور قبول علامہ کرخی ان صحیح احادیث کو منسوخ قراردے دیاگیا یا یہ کہ ان کی تاویل کی گئی، غیر سالم عن المعارضۃ کا حکم عاید کرکے انہیں معمول بہ کے دائرہ سےخارج کردیاگیا اور اس کی مطلق ضرورت نہیں محسوس کی گئی کہ دیکھاجائے تودعویٰ اجماع درست بھی ہے یانہیں ؟ اگر درست ہے تو کب ااور کہاں اور کن لوگوں کا یہ اجماع منعقد ہوا ؟ دعوی اجماع تو بہت آسان ہے، لیکن ا سکے انعقاد کا اثبات بہت مشکل ہے۔ اور کیاان واضح نصوص کی موجودگی میں