کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 237
سے جاملتی ہیں۔ اسی طرح امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے آخری حج کی تفصیلات یا آپ کا چالیس سال تک عشاء کے وضو سے فجر کی نماز ادا کرنا۔ ان تمام امور کی کتاب وسنت سے موافقت ومطابقت واضح کردی جائے، ا ور اس سلسلے میں چاہے جتنا غور وفکر کیاجائے او ر بحث وتحقیق اور امعان نظر سے کام لیاجائے، تو ہم سمجھیں گے کہ درحقیقت آپ اپنے دعوی میں سچے ہیں۔ چونکہ علامہ عامر عثمانی اب ہمارے درمیان رہے نہیں اس لیے انہیں کے نہج پر کام کرنے والے خصوصاً غازی پور کی شورائی مجلس ہی اس کا م کو انجام دے دے تو ہم ان کے بہت ہی ممنون ومشکور ہوں گے۔ ا ور ان شاء اللہ تاقیامت کتاب وسنت سے ان کی موافقت نہیں ظاہر کرسکتے۔ ہم یہاں یہ واضح کردینا چاہتے ہیں جیسا کہ برابر واضح کرتے چلے آئے ہیں کہ ہم اپنی ان معروضات کے ذریعہ علماء امت کی کسی بھی طرح تحقیر وتذلیل نہیں کرنا چاہتے ہیں اور نہ یہ ہمارا مقصود ہے بلکہ یہ اسلاف امت ہیں جنہوں نےممکنہ حد تک دین کی خدمت کی ہے، اور ان کی خدمات ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔ دین کی تعلیمات کو سمجھنے کے لیے ہم ان کی جدوجہد اور کوشوں سے بے نیاز نہیں ہوسکتے۔ ہمارےا وپر ان کی تعظیم وتوقیراور عزت واحترام واجب و ضروری ہے۔ کیوں کہ اسلام میں بڑوں کی عزت اور چھوٹوں کے ساتھ شفقت کولازمی قرار دیاگیاہے م، بصورت دیگرا سلام سے خروج کی وعید سنائی گئی ہے، چنانچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے: "لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَرْحَمْ صَغِيرَنَاوَیُوقَر کَبِیٗرُنَا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ [1] (جوہمارے بزرگوں اوربڑوں اک ادب واحترام نہ کرے اورہمارے بچوں پر شفقت نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے ) توعلماء امت کا ادب واحترام بدرجہ اولیٰ واجب وضروری ہوگا۔ لیکن اس ادب واحترام کا مطلب ہرگز ہرگز یہ نہیں ہے کہ دلائل کی روشنی میں اور ادب واحترام کے دائرہ میں ان سےا ختلاف نہیں کیا جاسکتا ہے، یایہ کہ ان کی ہر بات کو
[1] الترمذی فی السنن، ا لبر والصلۃ (۴/۲۸۴ حدیث نمبر ۱۹۲۱احمد شاکر ) ومسند احمد (۱/۲۵۷) عن عبداللہ بن عباس، ودیگر