کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 236
”فقہ کے بہیترے مسائل ایسے ہوتے ہیں جو صرف بادی النظر ہی میں نہیں، بلکہ تھوڑے غور وفکر اور نقد ونظر کے بعد بھی قرآن وسنت کےخلاف محسوس کرتے ہیں، لیکن جب زیادہ امعان نظر اورتفحص اور تحقیق وتدقیق سے کام لیاجائے توعین حق ثابت ہوتے ہیں۔ “[1] گویا فقہاء مذہب علم ومعرفت کے اس مقام پر فائز ہوتےہیں کہ ان سے غلطی کے صدور کا امکان باقی ہی نہیں رہ جاتا ہے۔ ا گر ان سے ایسی کوئی بات منقول ہو بھی جس میں بظاہر کتاب وسنت سے مخالفت کا پتہ چلتا ہو تو اس پر مخالفت کاحکم نہ لگا کر بقول علامہ کرخی آیت یا حدیث ہی کو منسوخ قراردیاجائے گا۔ یاپھر دونوں میں تطبیق اور توافق پیدا کرنے کےلیے آیت یاحدیث میں تاویل کا سہارا لیاجائے گا، اور یہی ان کے نزدیک زیادہ بہتر ہے۔ ا ور بقول علامہ عامر عثمانی بہت زیادہ امعان نظر اور بحث وتحقیق سے کام لیاجائے گا تو وہ کتاب وسنت کے عین موافق نظر آئیں گے۔ کاش کہ اپنے بظاہر بڑے ہی دل نشین اور معقول دعوی کی دوتین مثالوں سے واضح کردیتے تو بہت بہتر ہوتا۔ ورنہ ہمارے پاس توایسی بہت سی مثالیں ہیں جن کی کسی بھی صورت میں کتاب وسنت سے موافقت نظر نہیں آتی، سوائے ایک صورت کے کہ ہم بھی شخصیت پرستی کے اس مقام پر جابیٹھیں جہاں پہ حضرات بیٹھے ہوئے ہیں۔ مثال کےطور پر یہی بات جوفقہ کی ایک بہت ہی معتبر کتاب میں لکھی ہے کہ الدر المختار کی تالیف رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صریحی اجازت سے عمل میں آئی ہے، جیساکہ سابقہ طور میں بیان کیاجاچکاہے، یا ایک دوسری کتاب جوالدر المختار کی اصل ہے اور اس کا نام تنویر الابصار ہے، ا س کتاب کے مؤلف کے منہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان مبارک ڈال دی تھی۔ اور یہی وجہ ہے کہ ان دونوں کتابوں کو دوسری تمام کتابوں پر فوقیت حاصل ہوئی، ا ور چار دانگ عالم میں انہیں زبردست شہرت نصیب ہوئی۔ یایہ کہ ان دونوں کتابوں کی سندیں بواسطہ امام صاحب رحمہ اللہ تبارک وتعالیٰ
[1] ملاحظہ ہو تجلی، دیوبندی، ڈاک نمبر ماہ دسمبر 1976ء، مجالس المؤف محمد امین صفدر