کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 235
واضح اشارے ملتے ہیں۔ چوتھی صدی ہجری کے علامہ ابو الحسن عبیداللہ بن الحسن الکرخی (رحمہ اللہ وتجاوز عنہ) کو یہ کہنے کی کیوں ضرورت پیش آئی ؟ إن کل آیه تخالف قول أصحابنا فانھا تحمل علی النسخ او الترجیع، والأولی أن تجمل علی التاویل من جھة التوفیق [1] ”ہرو ہ آیت جوہمارے اصحاب قول کےخلاف ہواسے نسخ یا ترجیع (کذا) پر محمول کیاجائے گا، اور بہتر یہ ہے کہ اسے تاویل پرمحمول کیاجائے تاکہ توافق ظاہر ہوجائے۔ “[2] معاملہ اسی پر بس نہیں ہوتا بلکہ مزیدار شاد ہوتا ہے : إن كل خبر يجيء بخلاف قول أصحابنا فإنه يحمل على النسخ أو على أنه معارض بمثله [3] ”ہر وہ حدیث جوہمارے اصحاب کےقول کےخلاف ہو اسے نسخ پر محمول کیاجائے گا، یا یہ سمجھاجائے گا کہ وہ معارضہ ہے اپنے ہم پلہ حدیث کے۔ “[4] کیااسے شخصیت پرستی کی انتہا کا نام نہیں دیاجائے گا ؟ ہوسکتا ہے مولوی ابوبکر غازی پوری اور ان کی شورائی مجلس اپنی علمی مہارت اور فقہی بصیرت وبصارت کوکام میں لاتے ہوئے مذکورہ عبارت کا کوئی اچھوتا اور دل نشین معنی ومفہوم متعین کریں، ا ور اس پر کسی قسم کی شرعی یا لغوی قباحت مرتب ہونے سے انکار کریں، لیکن حقیقت یہی ہے کہ اس شخصیت پرستی سے شریعت سازی کی بو آتی ہے۔ شخصیت پرستی کے اسی مقام سے مولانا عامر عثمانی (رحمہ اللہ وغفرلہ ) جیسا جہاندیدہ شخص بھی لکھتا ہے :
[1] اصول الکرخی مع اصول البزدوی (ص۳۷۳ سطر ۳، ۲ مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی) منقول از اصلی اہل سنت (ص۱۲۰) [2] اصول الکرخی (اردو) (ص ۲۲نمبر۲۸، تحقیقات اسلامی، اسلام آباد منقول ازاصل اہل سنت (ص ۱۲۰) [3] اصولا لکرخی مع اصول البزدووی (ص ۳۷۳، ص ۱۶، ۱۵) [4] اصول الکرخی (اردو) (ص۲۵، نمبر ۲۹) منقول از اصلی اہل سنت (ص۱۲۰)