کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 231
” وَكَأَنَّ الْإِذْنَ لِلشَّارِحِ حَصَلَ مِنْهُ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - صَرِيحًا بِرُؤْيَةِ مَنَامٍ أَوْ بِإِلْهَامٍ، وَبِبَرَكَتِهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فَاقَ هَذَا الشَّرْحُ عَلَى غَيْرِهِ كَمَا فَاقَ مَتْنُهُ حَيْثُ رَأَى الْمُصَنِّفُ النَّبِيَّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -، فَقَامَ لَهُ مُسْتَقْبِلًا وَاعْتَنَقَهُ عَجِلًا؛ وَأَلْقَمَهُ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ - لِسَانَهُ الشَّرِيفَ كَمَا حَكَاهُ فِي الْمِنَحِ، فَكُلٌّ مِنْ الْمَتْنِ وَالشَّرْحِ مِنْ آثَارِ بَرَكَتِهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فَلَا غَرْوَ أَنْ شَاعَ ذِكْرُهُمَا، وَفَاقَ وَعَمَّ نَفْعُهُمَا فِي الْآفَاقِ [1]
’’ گویا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے شارح کو ( کتاب لکھنے کی) صریحی اجازت بذریعہ خواب یا بذریعہ الہام حاصل ہوئی تھی، ا ور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت کی وجہ سے ہی اس شرح کو دیگر شروح پر فوقیت وبرتری حاصل ہوئی تھی آپ کےا ستقبال میں کھڑے ہوگئے، ا ور سرعت کے ساتھ آپ سے معانقہ کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان مبارک ان کے منہ میں ڈال دی جیساکہ منح نامی کتاب میں یہ بات مذکور ہے۔ لہٰذا متن اور شرح دونوں ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی برکتوں کا نتیجہ ہیں، اگر ان دونوں کتابوں کو چاردانگ عالم میں شہرت وبرتری حاصل ہوئی اور ان کا نفع عام رہا تو اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ “
اب اس حقیقت سے مولوی ابوبکر غازی پوری جیسے ماہرین مذہب ہی پردہ اٹھاسکتے ہیں کہ ان کتابوں کوجن کی تالیف رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صریح اجازت سے عمل میں آئی ہے اور جن کی سند اللہ تبارک وتعالیٰ تک پہنچتی ہے۔، کیامقام ومرتبہ حاصل ہوگا؟ جب ایک فرد بشر کی تالیف کواللہ تبارک وتعالیٰ کی جانب منسوخ کیاجاسکتا ہے، ا ور اس کے بارے میں کہاجاسکتا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صریح اجازت سے اس کی تالیف عمل میں لائی گئی ہے تو ہدایہ کوقرآن کے مانند کہنے میں کون سی رکاوٹ حائل ہوسکتی ہے ؟ معاملہ اسی پر بس نہیں ہے کہ
[1] ردالمختار (۱/۸۴ طبعہ جدیدہ محققہ)