کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 229
مرکب کی سند عطا کرتے رہتے ہیں، ابن عبدالعابدین کے نام سے جانتے ہیں ) اور شامی کے نام سے بھی مشہور ہے، ا بن عابدین نے بھی الدرالمختار کی روایت کی ہے، اور اپنا طویل سلسلۂ نام امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تک پہنچاتے ہوئے فرماتے ہیں : ”۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عن إمام الأئمۃ وسراج الأئمۃ أبی حنیفة النعمان بن ثابت الکوفی۔ عن حماد بن سلیمان، عن ابراھیم النخعی، عن علقمۃ، عن عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنه، عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم، عن أمین الوحی جبریل علیہ السلام، عن االحکم العدل جل جلاله وتقدست أسماؤہ۔ ۔ ۔ ۔ [1] الدر المختار جوعلامہ حصکفی کی تالیف ہے، ا سے بطریق امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اللہ تبارک وتعالیٰ تک پہنچایا جارہاہے، کیا اسے کمال جرأت اور ڈھیٹ پن کا نام نہیں دیاجائے گا َ؟ کہ ایک ایسی کتاب ہے جسے ایک فرد بشر نے تصنیف کیاہے، اس میں کہیں بطور استدلال کسی آیت کا ذکر آیاہوگا، یا کسی کے نام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا نام مذکور ہوگا، اس کے باوجود کتاب کی سند اللہ تعالیٰ تک پہنچادی گئی، جس کا بظاہر مفہوم یہی ہے کہ کتاب میں موجودتمام باتیں اللہ تعالیٰ کی بیان کردہ ہیں۔ ا ن میں دورازکا روہ مفروضہ مسائل بھی ہیں جو محض انسانی ذہن کی اپج ہیں، جن کا امر واقع سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے، انہی میں امامت کی وہ ترتیب بھی ہے جس میں شکل وصورت اور سرسمیت عضو خاص کی بھی پیمائش کی گئی ہے، انہی میں کتاب الحیل کے اند ربیان کردہ دلچسپ مسائل بھی ہیں اور یہ سب کے سب مذکورہ سند روایت کی روشنی میں (نعوذباللہ ) اللہ تعالیٰ کے بیان کردہ ہیں۔ اس سے بھی بڑھ کر کوئی جرأت ہوسکتی ہے ؟ ہوسکتا ہے مولانا ابوبکر غازی پوری یا ان کے حاشیہ نشین اس کا کوئی اور معنی ومفہوم متعین کرکے اس سے کسی قسم کی معنوی قباحت کو دور کرنے کی ناکام کوشش کریں، جس سے ان کے ہمنوا حضرات کچھ دیر کےلئے مطمئن ہوجائیں گے،
[1] رداالمختار (۱/۷۱، ۷۲) طبعہ جدیدہ ومحققہ )