کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 228
التمرتاشی الغزی (ف۱۰۰۴ھ) ہیں اور الدرا لمختار نامی کتاب اسی تنویر الابصار کی شرح ہے، شارح یعنی الدر المختار کے مؤلف محمد علاء الدین حصکفی (ف۱۰۸۸ھ) اپنی سند کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں جس سند سے تنویر الابصار کوانہوں نے روایت کیاہے :
”فأنی أرویه عن شیخنا الشیخ عبدالنبی الخلیلی عن المصنف عن ابن نجیم المصری بسندہ إلی صاحب المذھب أبی حنیفة بسندہ إلی صاحب المذھب أبی حنیفة بسندہ إلی النبی المصطفی المختار، عن جبریل، عن اللہ الواحد القھار “ [1]
”میں اس کتاب (یعنی تنویر الابصار) کو اپنے شیخ عبدالنبی [2] خلیلی سے روایت کرتا ہوں، ا نہوں نے مصنف کتاب غزی سے، مصنف کتاب نے ابن نجیم مصری سے، ابن نجیم نے اپنی سند ے صاحب امام ابوحنیفہ سے، انہوں نے اپنی سند سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبرائیل علیہ السلام نے اللہ رب العزت سے روایت کیاہے “۔
ملاحظہ فرمائیے! کتاب توصیف کی ہے علامہ محمد بن عبداللہ تمرتاشی نے، ا ور اس کی سند پہنچائی جارہی ہے اللہ تبارک وتعالیٰ تک۔ ا ب آپ ہی بتلائیے ہم عرض کریں گے تو شکایت ہوگی۔ کیا یہ مبالغہ آمیزی نہیں ہے ؟
علامہ ابن عابدین محمد أمین (ف۱۲۵۲ھ) نے الدرا لمختار پر حاشیہ لکھا ہے، جو ردالمختار کے نام سے معروف ہے۔ اسی طرح یہ کتاب حاشیہ ابن عابدین (جن کو ہمارے کرم فرما مولانا غازی پوری جوعلماء اہلحدیث کا مبلغ علم ناپتے رہتے ہیں، ا ور جہل بسیط اور جہل
[1] الدر المختار (۱/۲)
[2] علماء اہل حدیث کی ہر چھوٹی بڑی غلطی پر ان کی نیش زنی اورطعن وتشنیع کرنے والے مولوی ابوبکر غازی پوری ہی اس نام کی مشروعیت بتلائیں گے، ہم کچھ عرض کریں تو گستاخ کہلائیں گے، ا ور موصوف غازی پوری کوحیرانی ہوگی جیساکہ انہوں نے اپنے زمزم میں ایک جگہ اس کی وضاحت فرمائی ہے۔ ج ۲ش ۸(ص۴۷)، ا ور کوئی بعید نہیں کہ ان کے یہاں ا س نام میں شرعی اعتبار سے کوئی قباحت نہ ہو، کیونکہ وہی تو ہیں جوابن عابدین کو ابن عبادلعابدین لکھتےہیں۔