کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 225
ہیں ؟ انصاف کی بات کیجیے اور جانبداری سے گریزکیجیے۔
موصوف غازی پوری نے چلتے چلاتے شعر کی نحوی ترکیب کے ذریعہ اپنے کیے ہوئے ترجمہ کوبقلم خود صحیح قررا دیا ہے، چونکہ موصوف نے نحومیر اور ہدایت النحوا سمیت نحوکی مبتدی ومنتہی کتابیں ہضم کرلی ہیں، اس لیے عربی زبان وادب پرا ن کو پورا عبور حاصل ہے۔ دوسروں کی عربی دانی پر تیر تنقید چلاتے ہیں۔ ان کی عربی دانی کی ایک جھلک اپنے ایک مضمون میں پیش کرچکا ہوں جس سے بخوبی اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ موصوف عربی زبان کو اپنے گھر کی لونڈی سمجھتے ہوئے جس طرح چاہتے ہیں استعمال کرتےہیں۔ موصوف نے جس طرح نحوی ترکیب کے ذریعہ اپنے ترجمہ کوصحیح قرار دیاہے اسی طرح نحوی ترکیب کے ذریعہ دوسرے ترجمہ کوبھی صحیح ثابت کیاجاسکتاہے، لیکن اس کا کوئی حاصل نہیں۔ کیونکہ آپ ماننے والے نہیں۔ حوالوں کے تعلق سےا تنا عرض کردیں کہ مذکورہ شعر چاہے ہدایہ کے اندر ہویاہدایہ کے باہر، ہدایہ کے مقدمہ میں ہو یا کسی اورمقدمہ میں لیکن معلوم ہونا چاہیئے کہ یہ شعر کہاگیاہے، ا ور کسی غیرمقلد نے اپنی جانب سےا سے گھڑا نہیں ہے، ا ور نہ ہی ی شعر محض انہی کی کتابوں میں پایا جاتاہے، بلکہ یہ آپ کے مذہب کی اہم کتابوں میں موجود ہے، یہاں تک کہ ہدایہ کی بعض طباعت میں اس کے سرورق پر مذکور ہے، اور اس کا کہنے والا قطعی طور پر کوئی حنفی مقلد ہی ہے اگر چہ ہم ا س کا بروقت نام نہیں جانتے۔ ا ور یہ بھی عرض کردیں کہ صرف یہی ایک شعر ہوتاتو ہم مولانا موصوف غازی پوری کی بات تسلیم کرنے پر اپنے آپ کومجبور کرلیتے، لیکن یہاں تو معاملہ ہی کچھ اور ہے، جیسا کہ آپ اگلی سطروں میں ملاحظہ کریں گے کہ کتب مذہب کے بارے میں کیاکیانہیں کہاگیا ہے۔ لہٰذا موصوف غازی پوری حوالوں کےتعلق سے یا ترجمہ کے تعلق سے جتنا چاہیں ہاتھ پیر چلائیں، اچھل خود مچائیں، عربی دانی کا سہارالیں اور شاعر کو اظہارخیال کی آزادی عطا کریں، لیکن شعر میں ہدایہ سے متعلق ایک حددرجہ آمیز اور مبنی برغلو بات کہی گئی ہے جوکسی طرح مناسب نہیں ہے، ا ور یہ تقلید ہی کی دین ہے۔