کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 224
بخاری کی شرح امت پر ایک قرض ہے، یعنی اس کی عظمت اور مقام ومرتبہ کا اعتبار کرتے ہوئے کماحقہ آپ سے پہلے کسی نے اس کی شرح نہیں لکھی ہے، ا ور جب آپ نے فتح الباری لکھ کر دنیا کے سامنے اسے پیش کردیا تولوگوں نے اس کا اعتراف کرتے ہوئے کہ حافظ ابن حجر نےصحیح بخاری کا حق اداکردیا، کہا : ”لاھجرۃ بعد الفتح “ [1]
معلوم ہوناچاہیے کہ یہ ایک حدیث رسول ہے جس میں فتح مکہ کے بعد ہجرت کی اہمیت وضرورت اور ا سکے اجر وثواب کے باقی نہ رہنے کی خبر دی گئی ہے۔ اسی حدیث رسول کو لے کر تلمیح کرتے ہوئے کہاگیا کہ فتح الباری کے بعد صحیح بخاری کی کسی اور شرح کی ضرورت نہیں رہ گئی ہے۔ ا س میں قرآن کریم کے ساتھ کسی بھی ناحیہ اور اعتبار سے مشابہت نہیں پائی جاتی ہے۔ لہٰذا موصوف غازی پوری کی اس مثال سے غازی پوری کی اس مثال سے مذکورہ شعر کی قباحت ختم نہیں ہوتی۔
مثال کے بعد موصوف نہایت آمرانہ وتحکمانہ انداز سے فرماتے ہیں :
”شاعر نے ہدا یہ کو قرآن کی طرح نہیں کہاہے، بلکہ وہ کہتا ہے کہ قرآن نے جس طرح دوسری آسمانی کتابوں کو منسوخ کردیا اسی طرح ہدایہ نے دوسری فقہی کتابوں کومنسوخ کردیاہے یعنی ہدایہ کے بعد اس کی (؟) ضرورت باقی نہیں رہتی ہے، ا گر کسی کا یہ خیال ہوتو آپ کو یا کسی کو اس پرکیااعتراض ہوسکتاہے “۔
چونکہ شاعر اپنا ہے اس لیے اس کےخیال کی اتنی پرواہ ہے آپ کو، کہ اس پر دوسروں سے اعتراض کا حق بھی سلب کرلیا۔ اگر یہی بات ہے کہ آپ کے شاعر کو اپنےخیال کے اظہار کی آزادی حاصل ہے چاہے وہ جتنا نامناسب اور غیر واقعی خیال ہو اس پر کسی کو اعتراض کا حق بھی نہیں ہے۔ اگر آزادئ رائے کا یہی مطلب ہے توصرف آپ کا شاعر ہی کیوں اس کا مستحق ہے دوسروں کوبھی اسی طرح اعتراض کرنے کی بھی آزادی حاصل ہونی چاہئے ۔ اعتراض کرنے والوں پر آپ تھانیدار بن کر دبش کیوں بھیج رہے
[1] حدیث کے مکمل الفاظ ہیں :” لاھجرۃ بعد الفتح، ولکن جھاد ونیة أذا استنفرتم ثم فانفروا“صحیح البخاری (۱۱/۲ حدیث نمبر ۲۷۸۳) صحیح مسلم (۳/۱۴۸۸، حدیث نمبر :۱۸۶۴)