کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 223
یوسف جے پوری رحمہ اللہ نے پورا شعر نقل کرکے ہدایہ کے مقدمہ کا حوالہ دیاہے، جس کی بناء پر مولانا ابوبکر غازی پوری کی رگ حمیت پھڑک اٹھی، ا ور انہیں جاہل محض قراردیتے ہوئے جہل مرکب کی سرٹیفکیٹ عنایت کردی ۔ حالانکہ اسے ہم صرف عدم دقت سے ہی تعبیر کرسکتے ہیں۔ لیکن اپنے اکابرین آیت کریمہ میں اضافہ کرکے مبینہ طور پرتقلید کی بلند وبالاعمارت قائم کرتےہیں، ا ور مخالفین کےا وپر تیر ونشتر چلاتے ہیں تواسے انسانی فروگذاشت کانام دیاجاتاہے۔ ا ور اگر علماء اہل حدیث نےحوالوں میں دقت سے کام نہیں لیایابعض عربی عبارتوں کے ترجمے میں غلطی کر بیٹھے تو انہیں جہالت مرکبہ وبسیطہ کا تمغہ دے کر ”ضلواوأضلوا“ کا ان پرحکم عاید کرتے ہیں۔ تِلْكَ إِذًا قِسْمَةٌ ضِيزَىٰ۔
موصوف غازی پوری صاحب نے مذکورہ شعر کی معنویت کوثابت کرنے اور ا س میں کسی قسم کی معنوی قباحت کی نفی کےلیے ایک مثال دی ہے، فرماتے ہیں :
”یہ اسی طرح کی بات ہے جیسے بخاری کی شرح فتح الباری کے بارے میں کوئی کہے کہ جس طرح قرآن سے بقیہ آسمانی کتابیں منسوخ ہوچکی ہیں کسی اور کتاب کی اب حاجت نہیں، اسی طرح فتح الباری نےحدیث کی تمام شروع کومنسوخ کردیاہے اس کتاب کے بعد بخاری کی کسی اور شرح کی ضرورت نہیں رہتی۔ ۔ “ [1]
اپنی جانب سے مثالیں گھڑ کر بہت سی غیر واقعی اور نامناسب باتوں کوواقعی ا ور مناسب ثابت کیا جاسکتاہے۔ [2]۔ موصوف ذرا ساتھ ہی یہ بھی بتلادیتے کہ فتح الباری کے بارے میں کس نے اور کہاں یہ بات کہی ہے ؟ ہمارے ناقص علم کے مطابق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ سے پہلے کہاجاتاتھا :” شرح کتاب البخاری دین علی الأمة “[3] صحیح
[1] زمزم، غازی پور، ج ۲ش ۸(ص۴۵)
[2] اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کرنے کے بعد فرشتوں سے سجدہ کرنے کے لیے کہاتو تمام فرشتے سجدے میں گرگئے سوائے ابلیس کے، اس نے کہا اے اللہ ! تو نے مجھ کو آگ سے پیدا کیاہے، ا ور آدم کومٹی سے، میں کیونکر آدم کو سجدہ کرسکتا ہوں۔ قرآن میں متعدد جگہ مختلف اسلوب میں اس کی تفصیل بیان کی گئی ہے، بظاہر بڑی مناسب بات معلوم ہوتی ہے لیکن اسی وجہ سے وہ راندۂ درگاہ ہوا۔
[3] مقدمہ ابن خلدون (ص۴۴۳)