کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 222
اللہ واسطے بتایاجائے کہ کیا اس میں مبالغہ آمیزی نہیں ہے ؟ مذکورہ دونوں ترجموں میں سے چاہے جس ترجمے کو اختیار کیاجائے، کیاکسی کتاب کو کسی بھی ناحیہ اور کسی بھی اعتبار سے قرآن کریم کے مماثل اور اس کے مشابہ قرار دیاجاسکتا ہے؟ اسی طرح یہ بھی بتلایاجائے ۔ اگر یہ کلام لغو نہیں ہے۔ کہ کیاحقیقی معنوں میں ہدایہ نے قرآن کریم کے مانند پہلے کی لکھی ہوئی کتابوں کو منسوخ کردیاہے ؟ اور یہ بات ہر شخص کو اچھی طرح معلوم ہے کہ منسوخ معدوم کےحکم میں ہوتا ہے معمول بہ نہیں ہوتا۔ شعر میں علی الاطلاق شریعت کی تمام کتابوں کو منسوخ کرنے کی بات کہی گئی ہے۔ لہٰذا شعر پر عمل کرتے ہوئے ہدایہ سے ماقبل تصنیف کی جانے والی شریعت کی تمام کتابوں کو یاکم ازکم فقہ کی کتابوں کو کالعدم قرار دیتے ہوئے انہیں دریابرد کردینا چاہیے، یا پھر اس شعر کے لغو وہذیان ہونے کا اعلان کردینا چاہیے۔ اگر ہم یہ بھی نہیں کرتے کہ اس کو لغو قرار دےدیں اور یہ بھی نہیں کرتے کہ اس شعر کےمصداق پہلے کی تصنیف کردہ تمام کتابوں کو دریا برد کرین تو براہ کرم اس شعر کے اندر بیان کی گئی ہدایہ کی تقدیس اور اس میں غیر معمولی مبالغہ آمیزی کوہی تسلیم کرلیں اور یہی ہم بیان کرناچاہتے ہیں۔ مدیر زمزم نے علامہ حکیم صادق سیالکوٹی رحمہ اللہ اور اسی طرح مولانایوسف جے پوری رحمہ اللہ کی بیان کردہ ترجمے اوراس کےحوالے کو غلط قرار دیتے ہوئے انہیں جاہل محض اور نہ جانے کس کس دل نشین اعلی خطاب سے نوازاہے، ا ور اپنے بیان کردہ ترجمے کی روسے اس شعر میں کسی قسم کی معنوی قباحت سے انکارکیاہے ۔ معلوم ہوناچاہیے کہ اہلحدیث علماء کی ہرحرکت اور ان کے ہرعمل میں ان لوگوں کوقباحت ہی قباحت نظر آتی ہے، ا ورفتنے ہی فتنے دکھائی دیتے ہیں۔ ا پنی اور اپنے لوگوں کی کسی بھی حرکت یا کسی بھی عمل میں کسی طرح کی کوئی قباحت نہیں نظر آتی خواہ وہ قرآن کریم میں مبینہ طور پر اضافہ ہی کیوں نہ ہو۔ حکیم صادق سیالکوٹی رحمہ اللہ نے مکمل شعر نہ نقل کرکے اس کےحوالہ میں ہدایہ کا ذکر کیاہے، مولانا