کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 214
شاگردوں نے، علماء مذہب نے اور خود مذہب کے معاصر محققین نےا مام صاحب کےا قوال کی مخالفت کرکے اپنے آپ کو اس لعنت کا مستحق قرار دیاہے۔ درمختار ہی میں امام صاحب کے متعلق حددرجہ مبالغہ آمیز مناقب بیان کرکے نہایت ہی تحکمانہ انداز میں کہاگیا ہے۔ ”کیف لا؟ وھو کالصدیق رضی اللہ عنه ” کیوں نہیں ( وہ ان مناقب کےحامل ہوں گے ) وہ توحضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرح ہیں “[1] کیا اسےحددرجہ مبالغہ آرائی یا مبنی برغلو بات نہیں کہی جائے گی ؟ بالکل کہی جائے گی، ا ور شاید اسی کا خیال کرتے ہوئے کتاب کئے محشی علامہ ابن عابدین رحمہ اللہ نے اس کی تاویل کوضروری سمجھا، چنانچہ فرماتے ہیں : ”دونوں حضرات کے مابین وجہ مشابہت یہ ہے کہ ان دونوں میں سے ہر ایک نے ایسے امر کی ابتداء کی تھی جس کوانجام دینے میں ان پر کوئی سبقت نہیں لے گیاتھا۔ چنانچہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت عمررضی اللہ عنہ کے مشورے سے قرآن کریم کوجمع کیاتھا۔ اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے فقہ کو قلم بند کرنے کی ابتداء کی تھی “۔ [2] اس تاویل میں علامہ ابن عابدین رحمہ اللہ کس قدر حق بجانب ہیں اس کی وضاحت میں بروقت نہیں کرسکتا، کیونکہ علماء کی توہین اور ان کی شان میں گستاخی کا فوراً سرٹیفکیٹ مل جائے گا۔ لیکن اتنی بات ضرور ہے کہ اگر یہی بات کسی اہل حدیث عالم کے قلم سے صادر ہوگئی ہوتی تواسے فوراً رفض اور زید یت ہر ایک کا بیک وقت سرٹیفکیٹ مل جاتاہے۔ ہم تویہی جانتے ہیں کہ تمام علماء سلف کا کتاب وسنت کی روشنی میں یہی عقیدہ ہے کہ کوئی غیرصحابی خواہ وہ علم وفضل کے جس مقام پر فائز ہووہ ایک ادنیٰ صحابی کے مقام کو نہیں پہنچ سکتا،
[1] کے برابر لعنتیں بھیجی گئی ہیں، کوئی بھی بآسانی فیصلہ کرسکتا ہے کہ کتاب وسنت اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے اقوال کے مابین کس کو ان لوگوں کی نظر میں زیادہ اہمیت حاصل ہے۔  تفصیل کےلیے ملاحظہ ہو:” کیایہی انصاف کا تقاضاہے؟“ منشور درمجلہ اشاعت السنۃ، دہلی [2] ردالمختار (حاشیہ ابن عابدین ) (۱/۳۹) (۱/۵۲ طبعہ جدید ہ محققہ)