کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 212
مبارک ڈالی تھی۔ اس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا علم مبارک مؤلف کی جانب منتقل ہوکر الدر المختار کی شکل میں نمودار ہوا۔ لہٰذا اس کے بیان کردہ مسائل میں غلطی کا امکان ہوہی نہیں سکتا۔
اللہ معلوم حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق جوبات کہی گئی ہے وہ فقہ کے ان بہتیرے مسائل میں سے ہے یا نہیں جن کے بارے میں مولانا عامر عثمانی رحمہ اللہ فرماگئے ہیں :” جو صرف بادی النظر ہی میں نہیں، بلکہ تھوڑے سے غور وفکر اور نقد ونظر کے بعد بھی قرآن وسنت کےخلاف محسوس ہوتے ہیں، لیکن جب زیادہ امعان نظر اور تفحص اور تحقیق وتدقیق سے کام لیاجائے توعین حق ثابت ہوتے ہیں۔ “ اگر زیر بحث مسئلہ بھی ان بہتیرے مسائل میں ہے توہم عرض کرنے کی جسارت کریں گی کہ عالم دیوبندیت ہی نہیں بلکہ عالم احناف بلکہ ساری دنیا کے امعان نظر اور تفحص، اور تحقیق وتدقیق کو جمع کرکے ذرا اس مسئلہ کی کتاب وسنت سے موافقت کوواضح کردیاجائے تو ہم ان کے بڑے ممنون ہوں گے۔ لیکن اتنا عرض کردیں کہ اس کو خود بعض علمائے احناف نے بھی باطل قرار دیاہے۔
چنانچہ نواب صدیق حسن خان بھوپالی علامات قیامت سے متعلق اپنی کتاب ”الاذعة لما کان ومایکون بین دی الساعة “ میں علامہ محمد البرزنجی(ف ۱۱۰3ھ ) کی کتاب ”اشاعة لأشراط الساعة“کےحوالے سے تحریر کرتے ہیں :
”وقع لبعض جھلة الحنفیة أنہ ادعی أن کلا من عیسی والمھدی یقلد مذھب الإمام أبی حنیفة، ووقفت للشیخ علی القاری الھروی نزیل مکة المشرفة علی تألیف سماہ“ المشرب الوردی فی مذھب المھدی “نقل فیه ھذا القول ورد علیه مشبعا وجھله۔ “
”بعض جاہل احناف کا یہ دعوی ہے کہ حضرت عیسی ٰ ومہدی علیہما السلام امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے مقلد ہوں گے، مجھے (ملّا) شیخ علی قاری ہروی مقیم مکہ مکرمہ کی تالیف کردہ ایک کتاب دستیاب ہوئی جس کا موصوف نے ”المشرب الوردی فی مذھب المھدی “ نام رکھا ہے، اس کتاب میں مذکورہ قول نقل کرنے کے بعد اس کی زبردست