کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 208
اسی طرح کا ایک اقتباس شاہ ولی اللہ رحمہا للہ کے رسالہ قول سدید سے بھی نقل کیاہے۔ [1]
کیاعلماء مذہب کی ان تصریحات کے بعد بھی ترک تقلید کو ناقابل معافی جرم گردانا جائے گا ؟ اور اس کو ”لامذہبیت “کانام دیاجائے گا؟
جیساکہ عرض کیاگیا ہم تقلید کےا ثبات یا اس کی نفی کی تفصیل میں نہ جاکر یہاں صرف یہ واضح کرنا چاہیں گے کہ حقیقی معنوں میں فتنوں کی جڑ تقلید یا ترک تقلید ؟ تو اس سلسلے میں سب سے پہلے عرض کرنا چاہیں گے کہ تقلید کے اثبات میں چاہے جتنا زور صرف کیاجائے اور اس کےلیے قرآنی آیات میں اضافے کا سہارالیاجائے یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ تقلید نے امت مسلمہ کوایسی کتنی ہی سوغات عطا کی ہیں جوکسی بھی طرح فتنوں سے کم نہیں ہیں۔ ان میں سرفہرست مذہب م کتب مذہب اور علماء مذہب کی مبنی پر غلو تقدیس وتعظیم ہے۔ اس سے متعلق کچھ تفصیلات بعض مضامین میں بیان کی جاچکی ہیں۔ لیکن کوئی مضائقہ نہیں کہ کچھ باتیں عرض کردی جائیں تاکہ قارئین کرام بخوبی اندازہ لگالیں کہ حق کس کے ساتھ ہے؟ اس امر پر ہر فرد مسلم کا یقین کامل ہے کہ اسلام ایک دین فطرت ہے جس کی تمام رعلیمات حددرجہ عادلانہ ہیں۔ غلو، مبالغہ آمیزی اور شدت پسند ی سے پاک ومبرأ ہیں۔ چنانچہ خود قرآن کریم کے اندر اللہ رب العزت کا یہ حکم موجود ہے :
” لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ وَلَا تَقُولُوا عَلَى اللَّـهِ إِلَّا الْحَقَّ“(النساء :۱۷۱)
اگرچہ اس آیت کریمہ میں اہل کتاب کومخاطب کرکے دین کےاندر غلو سے منع کیا
[1] ملاحظہ ہو: طریق محمدی (ص ۱۶۲، ۱۶۳)