کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 206
مثال کے طور پر برصغیر کی ایک نہایت عظیم شخصیت جنہیں شیخ الہند جیسا عظیم ترین لقب حاصل ہے جذبہ تقلید سے اس حد تک سرشار ہیں کہ انہوں نے تقلید کے اثبات میں قرآن کریم کی ایک آیت میں مبینہ طور پرا ضافہ کرڈالا۔ ہمیں اس عظیم ہستی کے بارے میں یہی حسن ظن سےا یسا ہوگیا ہے، جو ہر انسان کا خاصہ ہے، کواہ علم وفضل اور کمال معرفت کے جس مقام پر بھی فائز ہو۔ لیکن تعجب ہے ہمیں اس بات پر کہ کس طرح تحکمانہ بلکہ تحقیرانہ انداز سے اس اضافہ کو بنیاد بناکر منکرین تقلید کی گوشمالی کرنی چاہی ہے۔ اور یہ کسی ایک عام عالم کی بات نہیں ہے بلکہ ایک ایسے صاحب علم وفضل کی بات ہے جن کو اسی قرآن کریم کے معانی کو اردوقالب میں ڈھالنے کا عظیم شرف بھی حاصل ہے۔ اس سے بھی زیادہ تعجب خیزامر یہ ہے کہ اس مبینہ غلطی کی نشاندہی کے بعد بھی نہ صرف غلطی کو باقی رکھاگیا بلکہ اس کو باقی رکھتے ہوئے از ہر ہند کے فاضل اساتذہ کی زیر نگرانی نصف صدی سے زائد عرصہ تک اس کتاب کی طباعت عمل میں لائی جاتی رہی۔ اور یہی نہیں کہ صرف اسی ایک صاحب علم وفضل ہستی سےا س قسم کی فروگذاشت ہوئی ہو بلکہ ان کے علاوہ اور بھی نہیں جنہوں نے اسی مبینہ اضافہ کوبنیاد بناکر اس پر تقلید کی عمارت قائم کی ہے۔ [1] ہوسکتاہے ان لوگوں کی نظر میں قرآن کریم میں اضافہ کوئی معمولی بات ہو، ورنہ ہم اس کو ایک برا فتنہ ہی تصور کرتے ہیں، جس میں تقلید کا ہی زبردست عمل دخل ہے۔ تقلید کی انہیں کرشمہ سازیوں کی بناء پر بہت سے علمائے متقدمین ومتأکرین نے تقلید کی سخت مذمت بیان کی ہے۔ اس سلسلہ میں مستقل کتابیں تصنیف کی ہیں۔ آج چاہے جتنا زور صرف کیاجائے اس کو ضروری قرار
[1] تفصیل کےلیے ملاحظہ ہوراقم کا مضمون : کیا یہی انصاف کا تقاضا ہے؟ منشور در، مجلہ اشاعت السنۃ دھلی ج ۲ش ۲ (ص ۴۱)