کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 205
امام صاحب کےقول کی گہرائی کوسمجھنے کی صلاحیت نہ رکھتے ہوں اور بدظنی کی وجہ سےخواہ مخواہ دشمنی مول لینے سےا نہیں متہم کیاجائے تو پھر امت میں کون ہے جو امام صاحب کی مخالفت کی جرأت کرسکتاہے۔ لیکن خودا ن کی کتابوں میں امام صاحب کے بعض اقوال کو ظاہر قرآن کے مخالف کہاگیا ہے، ا ور ان کے قول کوچھوڑ کر صاحبین اور دیگر شاگردوں کےا قوال کو مذہب بنایا گیاہے۔ [1]اس مخالفت سے امام صاحب کی شخصیت پر کوئی آنچ نہیں آسکتی۔ لیکن یہی اسلوب اگر کوئی اہلحدیث عالم خواہ متقدم ہو یا متأخر اختیار کرتا ہے توفوراً اس کو گستاخ، بدتمیز اور کم فہم قرار دیتے ہوئے مختلف اوصاف سے اسے نوازنا شروع کردیتے ہیں۔ بالکل اسی طرح سے جس طرح سے علماء اہل حدیث کے اختیار کردہ مسائل کو مزاج اور مزہب کےبرخلاف پانے کی وجہ سے شاذ قرار دے کر ان کو گالیوں کی سوغات دینا شروع کردیتے ہیں، یہود ونصاری کی موافقت وتائید ان کو نظر آنے لگتی ہے حالانکہ وہ مسائل خود ان کے یا دیگر ائمہ کرام کے اختیار کردہ ہوتے ہیں، لغو بدظنی، خواہ مخواہ کی دشمنی اور معاندانہ روش کے یہ خود شکار ہوتے ہیں لیکن دوسرون کو بلکہ خاص طور سے علماء اہلحدیث کو مہتمم کرتے ہیں۔ مذہب، امام مذہب، کتب مذہب اور علمائے مذہب کی مبنی برغلو تقدیس آج کل ترک تقلید کی بڑی شدومد کے ساتھ مخالفت کی جارہی ہے، اور مخالفت میں اس حد تک جوش وجذبہ کا مظاہرہ کیا جارہاہے کہ اسے تمام فتنوں کی جڑ اور بنیاد قرار دے کر تقلید کے اثبات اور وجوب میں ایسی باتیں اور سیے دلائل پیش کیے جاتے ہیں جن کو سن کر اور پڑھ کر آدمی انگشت بدنداں رہ جاتاہے۔ کیونکہ باتیں ہی کچھ اس طرح کی ہوتی ہیں کہ کسی بھی صاحب ہوش وحواس سےا س قسم کی باتوں کی توقع نہیں کی جاسکتی ہے۔
[1] اس کو ایک مستقل مضمون میں دلائل کے ساتھ واضح کیا گیاہے۔